ریاستِ مدینہ کا قیام: کفار، مشرکین اور منافقین کی سازشوں کے باوجود کامیاب اسلامی انقلاب

تحریر: رانا علی فیصل
ریاستِ مدینہ کی بنیاد اسلامی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جس نے دنیا کو ایک ایسا فلاحی ماڈل دیا جس کی نظیر نہ ماضی میں تھی، نہ آج کے جدید دور میں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی، تو اس کے ساتھ بے شمار چیلنجز بھی جڑے تھے۔ یہ چیلنجز صرف بیرونی دشمنوں تک محدود نہیں تھے بلکہ داخلی دشمن بھی سازشوں میں مصروف تھے۔ اس مضمون میں ہم اُن تمام مسائل، مشکلات اور سازشوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے جن کا سامنا حضور ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ میں کرنا پڑا۔
مکہ سے ہجرت اور مدینہ کی بنیاد
جب مکہ مکرمہ میں کفارِ قریش کی اذیتیں اور ظلم حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضور ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ اس وقت “یثرب” کہلاتا تھا اور وہاں اوس و خزرج نامی دو بڑے قبائل آباد تھے جن کے درمیان کئی سالوں سے جنگ و جدل جاری تھا۔ حضور ﷺ کی آمد کے بعد اُن کے درمیان صلح ہوئی اور یہ آپؐ کی قیادت میں متحد ہو گئے۔ یہ مدینہ کی اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ تھی۔
ریاستی چیلنجز اور پہلا آئین
مدینہ میں سب سے پہلا کام جو حضور ﷺ نے کیا وہ تھا “میثاقِ مدینہ” کا قیام۔ یہ تاریخ کا پہلا تحریری آئین تھا جس میں:
- مسلمانوں، یہودیوں، مشرکین اور دیگر اقوام کے درمیان شہری حقوق و فرائض طے کیے گئے
- سب کو مذہبی آزادی دی گئی
- جنگ و امن کے اصول بنائے گئے
یہ ایک انقلابی اقدام تھا جس نے مدینہ کو ایک منظم ریاست کی شکل دی۔
کفارِ مکہ کی مسلسل سازشیں
ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد بھی کفارِ مکہ خاموش نہ بیٹھے۔ انہوں نے:
- مدینہ پر حملے کی تیاری شروع کی
- مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو لوٹا
- منافقین کو مدینہ میں سرگرم کیا
غزوہ بدر:
مدینہ کی ریاست کو پہلا بڑا دفاعی معرکہ غزوہ بدر کی صورت میں پیش آیا۔ مکہ کے ایک ہزار مسلح افراد نے مدینہ پر حملہ کیا جبکہ مسلمان صرف 313 تھے۔ مگر اللہ کی مدد سے مسلمان غالب آئے اور کفار کو عبرتناک شکست ہوئی۔
غزوہ احد:
غزوہ بدر کی شکست کے بعد کفار نے بدلہ لینے کے لیے احد پر حملہ کیا۔ اس معرکہ میں کئی صحابہ شہید ہوئے، حتیٰ کہ حضور ﷺ بھی زخمی ہوئے، لیکن دشمن کامیاب نہ ہو سکا۔
غزوہ خندق:
قریش نے دیگر قبائل کو ساتھ ملا کر مدینہ پر مشترکہ حملہ کیا، لیکن مسلمانوں نے مدینہ کے گرد خندق کھود کر دفاع کیا۔ یہ اسلامی عسکری حکمتِ عملی کی عظیم مثال تھی۔
یہودی قبائل کی عہد شکنی
مدینہ میں آباد یہودی قبائل نے ابتدا میں میثاقِ مدینہ کو قبول کیا تھا لیکن بعد میں:
- بنو قینقاع نے مسلمانوں سے جنگ چھیڑ دی
- بنو نضیر نے حضور ﷺ کے قتل کی سازش کی
- بنو قریظہ نے غزوہ خندق کے دوران کفار سے خفیہ اتحاد کر لیا
ان قبائل کو جب ان کی عہد شکنی پر سزا دی گئی تو انہیں مدینہ سے نکال دیا گیا۔
منافقین کی اندرونی سازشیں
عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے مدینہ میں منافقت کا بازار گرم کیا۔ ان کی سازشوں میں شامل تھا:
- اسلامی لشکر سے پیچھے ہٹنا (غزوہ احد میں)
- مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا
- یہودیوں سے خفیہ روابط رکھنا
- رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا (واقعہ افک کے دوران)
اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ اور سورۃ المنافقون میں ان کے کردار کو کھول کر بیان فرمایا۔
معاشی اور معاشرتی مشکلات
مدینہ ایک زرعی شہر تھا جہاں زیادہ تر لوگ کھجور کے باغات پر گزارا کرتے تھے۔ مہاجرین کے لیے:
- روزگار کا مسئلہ تھا
- رہائش کی قلت تھی
- وسائل محدود تھے
صحابہ کرامؓ نے انصار کے ساتھ بھائی چارے کے تحت مہاجرین کو اپنے گھر، کاروبار اور زمین تک دے دی۔ یہ مثال آج بھی دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔
اخلاقی اور معاشرتی تربیت
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں:
- سود کے خاتمے کا اعلان کیا
- زکوٰۃ کو لازم قرار دیا
- شراب، جوا، زنا جیسے گناہوں کی روک تھام کی
- عدل و انصاف کا نظام قائم کیا
عدالتی مثال:
ایک فاطمہ نامی خاتون چوری میں پکڑی گئی۔ بعض لوگوں نے سفارش کی مگر حضور ﷺ نے فرمایا:
“اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اُس کا ہاتھ کاٹوں گا۔”
یہی وہ عدل تھا جس نے دشمنوں کے دل میں بھی آپ کا رعب بٹھا دیا۔
ریاستِ مدینہ کا بین الاقوامی پیغام
حضور ﷺ نے مدینہ کے استحکام کے بعد:
- دیگر بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے خطوط ارسال کیے
- روم، فارس اور مصر کے بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دیا
یہ پہلی اسلامی ریاست کی عالمی سطح پر شناخت کا آغاز تھا۔
نتیجہ: ریاستِ مدینہ آج کے لیے سبق
ریاستِ مدینہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا عملی نمونہ ہے جس میں:
- قیادت میں تقویٰ ہو
- عدل و انصاف سب کے لیے برابر ہو
- اقلیتوں کو حقوق دیے جائیں
- معاشی برابری اور فلاحی نظام قائم ہو
آج کے پاکستان کے لیے پیغام:
اگر ہم واقعی “ریاستِ مدینہ” کا ماڈل اپنانا چاہتے ہیں تو صرف نعرے نہیں، بلکہ عمل میں سچائی، اخلاص، قربانی اور عدل کو اپنانا ہوگا۔
جس معاشرے میں انصاف نہ ہو، جہاں غریب کے لیے قانون اور ہو، امیر کے لیے اور — وہاں پر اندھیروں کی آندھیاں چلتی ہیں، ظلم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، جیسے کہ آج کے پاکستان میں ہر سنجیدہ انسان کو دکھائی اور سنائی دے رہا ہے۔
- سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے:
👉 Seerat-un-Nabi ﷺ by IslamWeb
وہابی مرکز سے جدیدیت کی بھینٹ تک: سعودی عرب کا بدلتا چہرہ”
🔗 غزواتِ نبوی ﷺ کی فہرست (Wikipedia Urdu)
(تمام بڑی جنگوں کا خلاصہ جن کا ذکر آپ کے مضمون میں ہے)