غدار کون؟ فیصلہ آپ پر ہے! — پشتون قوم کی قربانیوں کی ناقابلِ تردید داستان

✍️ تحریر: رانا علی فیصل
🔗 Haqeeqat Pakistan | www.ranaaliofficial.com
جب کوئی قوم پر الزامات کی بوچھاڑ کی جائے، اُس کی وفاداری کو مشکوک بنایا جائے، اور اس کے کردار کو غداری کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جائے، تو لازم ہے کہ تاریخ کا دامن تھاما جائے اور سچائی کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔
آج پشتون قوم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کبھی دہشتگردی کے پردے میں، کبھی سیاسی نظریات کی آڑ میں، لیکن سوال یہ ہے:
کیا ہم بھول گئے کہ 1947 میں پاکستان کے حق میں پشتونوں نے ووٹ دیا؟
ہمارے بزرگوں نے اُس وقت پاکستان کو اپنایا جب انگریز اور ہندو ذہن سازیاں کر رہے تھے کہ پشتونستان الگ ریاست ہو۔ مگر پشتون قوم نے جناح کا پاکستان چُنا۔ کیا یہ کم تھا؟
کیا ہم نظرانداز کر سکتے ہیں کہ 1948 میں آزاد کشمیر کی جنگ میں سب سے پہلی کامیاب عسکری پیش قدمی پشتون قبائلیوں نے کی؟
انہوں نے بغیر تنخواہ، بغیر کسی ریاستی مراعات، صرف اسلام اور پاکستان کی محبت میں میدان جنگ میں کود کر سری نگر تک کا راستہ کھولا۔
1965 کی جنگ ہو یا 1971 کی، پشتون ہمیشہ پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑے۔
پشتون سپاہیوں کی قربانیاں سرحدوں پر ثبت ہیں۔ کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) جیسے عظیم پشتون، پاکستان کی مٹی پر اپنے خون سے شہادت کی روشن مثال بن گئے۔
1969 میں دیر، سوات، چترال اور خیبر کی خودمختار پشتون ریاستوں نے بلا مشروط پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔
نہ کوئی معاہدہ، نہ کوئی شرط—صرف وطن سے محبت کا جذبہ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی الگ بادشاہتیں رکھتے تھے مگر پاکستانی پرچم کے سائے کو ترجیح دی۔
1979 کا روسی حملہ اور پشتونوں کی خونچکاں مزاحمت
جب روسی افواج افغانستان کے راستے پاکستان کے “گرم پانیوں” تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہے تھے، تب پشتون قوم نے اُن کا خواب چکنا چور کر دیا۔ لاکھوں پشتونوں نے اپنی جانیں قربان کیں تاکہ پاکستان محفوظ رہے۔
2001 تا 2016 کی دہشتگردی کی جنگ — سب سے بڑی قربانی پشتونوں نے دی
قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخواہ کے عوام نے اپنی زمینیں، گھر، خاندان، اور زندگیاں کھو کر پاکستان کو بچایا۔ آپریشن ضربِ عضب، راہِ نجات، اور ردالفساد کی کہانیاں صرف فوج کی نہیں، پشتون عوام کی داستانیں بھی ہیں۔
پھر غدار کون؟
اگر پشتون غدار ہیں تو پھر وفاداری کس کو کہتے ہیں؟ اگر پشتون دہشتگرد ہیں تو پھر شہید کون ہیں؟ اگر پشتون مشکوک ہیں تو پھر نثار کون ہیں؟
آج ایک سوال ہے پاکستان سے:
کیا پشتون قوم کے ہر زخم پر سوالیہ نشان لگانا جائز ہے؟
کیا اُن علاقوں کو مزید دیوار سے لگانا درست ہے جنہوں نے سب سے زیادہ لاشیں اٹھائیں؟ کیا صرف زبان، ثقافت یا سیاسی نظریے کی بنیاد پر ایک پوری قوم پر لیبل لگانا منصفانہ ہے؟
انسانیت کی خاطر آواز اُٹھائیں
اگر آپ انسانیت، بھائی چارے، اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں تو آیئے، دنیا کو بتائیں کہ ہم پشتونوں کو دہشتگرد نہیں بلکہ امن کے سفیر سمجھتے ہیں۔
ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی نسلیں قربان کیں۔
✊ ہم سب پاکستانی ہیں
نہ کوئی چھوٹا، نہ بڑا
نہ کوئی شک کے قابل، نہ کوئی مشکوک