حضرت نوح علیہ السلام: صبر، ہدایت اور طوفان کے پیچھے چھپی رحمت کی کہانی

دنیا کی تاریخ میں اگر سب سے پہلے نبیوں میں سے کسی کی دعوتِ حق، صبر اور استقلال کا ذکر ہو تو وہ نام حضرت نوح علیہ السلام کا ہے۔ آپ وہ عظیم پیغمبر ہیں جنہوں نے قوم کو نو سو پچاس برس تک اللہ کی طرف بلایا، لیکن جواب میں طعنہ، استہزاء اور تکذیب کے سوا کچھ نہ پایا۔
نبوت اور دعوت کا آغاز
حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں نبی بنا کر بھیجا جب دنیا میں شرک اور بت پرستی عام ہو چکی تھی۔ قومِ نوح پتھروں کو معبود بنا چکی تھی، اور توحید کا چراغ مدھم ہوتا جا رہا تھا۔ اللہ کے برگزیدہ بندے حضرت نوحؑ نے اسی وقت ربّ کی طرف سے وحی پانے کے بعد لوگوں کو دعوتِ حق دینا شروع کی:
“اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔”
آپ نے دن کو بھی بلایا، رات کو بھی۔ تنہائی میں بھی نصیحت کی، اور مجمع عام میں بھی۔ لیکن قوم کی اکثریت نے آپ کی بات نہ مانی۔
قوم کا انکار اور مذاق
قومِ نوح کے سردار، مالدار لوگ اور دنیا پرست طبقہ آپ کا مذاق اڑاتے، کہتے:
“یہ نوح تو ایک عام انسان ہے، اس کے ماننے والے بھی کمزور اور غریب لوگ ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے اس کی ماننے کی؟”
ان کے دلوں پر تعصب، تکبر اور جہالت کی مہر لگ چکی تھی۔ حضرت نوحؑ نے ان سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ مگر وہ باز نہ آئے۔
صبر کی انتہا: 950 سال کی جدوجہد
حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے پیغام کو 950 سال تک مسلسل پہنچایا۔ وہ ہر دروازے پر گئے، ہر دل کو جھنجھوڑا، ہر ذرے میں توحید کی گونج بٹھائی، مگر ماننے والے صرف چند ہی بنے۔ اس طویل دعوت کے باوجود حضرت نوحؑ نے اپنی زبان سے کبھی بد دعا نہ کی، یہاں تک کہ جب قوم کی گمراہی حد سے بڑھ گئی، تب جا کر دعا کی:
“اے میرے رب! زمین پر کسی کافر کو باقی نہ چھوڑ!”
اللہ کا حکم اور کشتی کی تعمیر
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو حکم دیا کہ وہ ایک کشتی بنائیں۔ لوگوں نے اس پر بھی مذاق اڑایا:
“اے نوح! اب تم بڑھئی بن گئے ہو؟”
مگر نوح علیہ السلام جانتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے، اور وہی نجات دینے والا ہے۔ انہوں نے ایک عظیم کشتی بنائی جس میں ہر قسم کے جانوروں کا جوڑا، مومنین، اور آپ کے خاندان کے وہ افراد جو ایمان لا چکے تھے، سوار ہوئے۔
طوفان نوح: اللہ کی عدالت کا منظر
پھر اللہ کا وعدہ سچ ہو گیا۔ آسمان سے بارش برسنے لگی، زمین شق ہو گئی، اور پانی ہر سمت سے اُبل پڑا۔ وہ طوفان ایسا تھا جس نے زمین کے ہر کافر کو بہا دیا۔ ایک پہاڑ کی بلندی پر چڑھنے والے حضرت نوحؑ کے بیٹے نے بھی بچنے کی کوشش کی، مگر اللہ کے عذاب سے کوئی نہ بچ سکا۔
“آج اللہ کے حکم سے سوائے اس کے جس پر رحم کیا جائے، کوئی بھی محفوظ نہ ہوگا۔”
حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کے لیے التجا کی، مگر اللہ نے فرمایا:
“اے نوح! وہ تمہارا بیٹا نہیں، کیونکہ اس نے نافرمانی کی راہ اختیار کی۔”
کشتی کا قرار اور نیا آغاز
آخرکار کشتی ایک پہاڑ پر آ کر رک گئی۔ حضرت نوحؑ اور ان کے ماننے والے اللہ کے شکر گزار بنے۔ یوں ایک گناہ گار قوم ختم ہوئی اور زمین پر توحید کی نئی بنیاد رکھی گئی۔
نوح علیہ السلام کا پیغام آج بھی زندہ ہے
حضرت نوحؑ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ:
- حق کی راہ پر اکیلے بھی چلنا پڑے تو ڈرنا نہیں چاہیے
- صبر ہمیشہ رنگ لاتا ہے، چاہے وقت کتنا بھی لگے
- قوم جب نصیحت سے روگردانی کرتی ہے، تو اللہ کا عذاب اُسے لپیٹ میں لے لیتا ہے
- اللہ کی پناہ صرف ایمان والوں کے لیے ہے
📌 اختتامیہ
حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی صرف ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ ایک زندہ پیغام ہے ان لوگوں کے لیے جو آج کے باطل نظام سے لڑ رہے ہیں۔ سچائی، صبر، اور یقین وہ ہتھیار ہیں جو ہر طوفان کو شکست دے سکتے ہیں۔
- قرآن مجید میں حضرت نوحؑ کا ذکر:
“قرآن مجید میں سورہ نوح میں حضرت نوحؑ کی قوم کے رویے اور اللہ کی وعید کا ذکر موجود ہے — سورہ نوح – Quran.com“
📢 تازہ ترین تحریریں، تجزیے اور انبیائے کرام کی کہانیاں براہ راست موبائل پر حاصل کریں۔
ہم سے WhatsApp چینل پر جڑیں 👇
➡️ https://whatsapp.com/channel/0029Vb6JguX7Noa8rFhJpK1A