📝 مردہ قومیں اور لٹے ہوئے وسائل – ایک بے حسی کی دردناک داستان

✍️ از: رانا علی فیصل
برائے: HaqeeqatPakistan | ranaaliofficial.com
جس طرح مردے کو علم نہیں ہوتا کہ اس کا مال، اس کی زمین، اس کے زیورات کون لے گیا — اسی طرح جب کوئی قوم شعور سے خالی ہو
جائے، جب وہ مردہ ضمیر کے ساتھ زندہ ہو، تو اسے بھی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے وسائل، خزانے، عزت اور خودمختاری کو کون، کب، اور
کیسے لوٹ کر لے گیا۔
پاکستانی قوم آج اسی المیے سے گزر رہی ہے۔ ہم جاگتے ہوئے بھی سوئے ہوئے ہیں۔ ہمارے سامنے سے قوم کا سرمایہ اٹھایا جا رہا ہے،
ہمارے بچوں کا مستقبل نیلام ہو رہا ہے، لیکن ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
مردہ قوم کی نشانیاں
مردہ قوم وہ ہوتی ہے:
- جسے روٹی، پانی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی کمی پر غصہ نہ آئے؛
- جو ہر ظلم کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر چپ سادھ لے؛
- جو سوال کرنے والوں کو مجرم اور جابر کو “محسن” مان لے؛
- جس کے نوجوان موبائل اور ٹک ٹاک میں دفن ہو چکے ہوں؛
- جہاں عالم، سیاستدان اور صحافی صرف ذاتی مفادات کے غلام ہوں۔
ایسی قوم کو تاریخ ہمیشہ “غلام” لکھتی ہے — اور پھر وہی ہوتا ہے جو آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
وسائل کی لُوٹ مار — لیکن خاموشی کیوں؟
ہمارا بلوچستان سونے، گیس، تیل اور معدنیات سے بھرا ہوا ہے، لیکن وہاں کے بچے پیاس سے مرتے ہیں۔
ہمارا سندھ زرخیز زمین کا مالک ہے، لیکن تھر میں بچے بھوک سے مرتے ہیں۔
ہمارا خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان قدرتی حسن اور توانائی کے خزانے رکھتے ہیں، لیکن وہاں کے اسپتال کھنڈرات ہیں۔
اور پنجاب؟ وہاں ووٹ کے نام پر عوام کو ذلت دی جاتی ہے، اور انہیں صرف مذہبی جذبات سے کھیل کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے: قوم کہاں ہے؟
قوم مردہ ہو چکی ہے۔
زندہ قومیں سوال کرتی ہیں۔
مردہ قومیں “چپ رہو، کچھ نہیں بدلتا” کا راگ الاپتی ہیں۔
تاریخ کا سبق — جب قومیں بیدار نہ ہو سکیں
اندلس، بغداد، عثمانی خلافت، ایران کا زوال، فلسطین… سب کی تاریخ ایک ہی سبق دیتی ہے:
“جب قومیں بیدار نہ ہوں، اور اپنی دولت، عزت اور خودمختاری کی حفاظت نہ کریں، تو وہ قومیں صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں۔”
آج اگر ہم نے نہ جاگا تو کل ہمارے بچے ہمیں معاف نہیں کریں گے۔
موجودہ پاکستان — ایک تماشہ گاہ
- آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے ہم اپنی خودمختاری گروی رکھ دیتے ہیں۔
- طاقتور ادارے زمینیں، ہاؤسنگ اسکیمیں اور بزنس ایمپائرز بنا رہے ہیں۔
- سیاستدان چور دروازے سے اقتدار میں آ کر عوام کو مزید غلام بنا رہے ہیں۔
- میڈیا صرف وہی دکھاتا ہے جو اشرافیہ کو پسند ہو۔
- عدلیہ صرف طاقتور کے لیے مہربان ہے، باقی سب کے لیے سلاخیں۔
پھر بھی ہم خاموش ہیں۔
کیوں؟
کیونکہ ہم مردہ قوم بن چکے ہیں۔
اور مردے کبھی چیخ نہیں سکتے
سوشل میڈیا — آخری امید؟ یا زہر؟
ایک طرف یہی پلیٹ فارم سچ بولنے والوں کی آواز ہے،
دوسری طرف ٹرینڈز، memes، اور فحاشی سے نوجوانوں کو بے حس بنانے کا ہتھیار بھی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس طاقت کو “بیداریِ شعور” کے لیے استعمال کریں۔
اختتامیہ — ایک سوال، ایک چیلنج
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ملک کا سونا، تیل، گیس، پانی، زمین، حتیٰ کہ تعلیم اور صحت تک، کس کے ہاتھ میں ہے؟
اگر نہیں… تو آپ بھی ایک “مردہ قوم” کا حصہ ہیں۔
لیکن اگر جان کر بھی خاموش ہیں… تو شاید ضمیر بھی مر چکا ہے۔
فیصلہ آپ کا ہے:
جاگنا ہے، یا سسک سسک کر مرنا ہے۔
🔗 مزید سچائی کے لیے ہمیں فالو کریں
ہماری تازہ ترین تحقیقاتی تحریریں، سیاسی تجزیے، اور عوامی مسائل پر گہری نظر رکھنے کے لیے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کریں:
👉 مزید جاننے کے لیے حقیقی اسلام کی تلاش: مسلک نہیں، محمد ﷺ کا راستہ پر ضرور نظر ڈالیں۔
🧠 مزید پڑھیں: مراد سعید سینیٹر منتخب: قربانیاں، الزامات، اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کا پورا سفر — ایک بہادر سیاسی کارکن کی کہانی۔