انصاف اور مذہب
تحریر: رانا علی فیصل
پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں دین، شریعت، اور علما کرام کو بڑی عزت حاصل ہے، وہاں اگر کوئی پانچ سالہ نابینا بچہ مسجد میں قرآن سیکھنے جائے اور قاری اس کے ساتھ مسلسل بدفعلی کرتا رہے تو یہ صرف جرم نہیں، بلکہ دین، انسانیت اور ضمیر کی سب سے بڑی توہین ہے۔ جامعہ مسجد صدیق اکبرؓ سے تعلق رکھنے والے قاری نور خلیل دامت برکاتہم پر الزام ہے کہ انہوں نے مسجد کے ساتھ متصل ایک کمرے میں پانچ سالہ نابینا طالب علم عبداللہ کو بار بار بدفعلی کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا نہ پہلا ہے، نہ آخری، مگر سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس ظلم پر علمائے دین کی خاموشی خود ایک بڑا سوال بن چکی ہے۔
مولویوں کی خاموشی: جرم میں شراکت؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی مدرسے یا مسجد میں ایسا بھیانک واقعہ رونما ہوا ہو۔ اس سے پہلے بھی درجنوں کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں بچوں کے ساتھ زیادتی، مار پیٹ، اور جنسی تشدد شامل ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان واقعات کے خلاف ہمارے علما کرام، جو اکثر حکومت، سوشل میڈیا، اور مشہور شخصیات کے ایک ایک جملے پر فتوے دینے میں دیر نہیں کرتے، اس ظلم پر لب کشائی نہیں کرتے۔
انہی مولویوں کے منہ سے ہم نے سنا کہ کسی گستاخ پر “واجب القتل” کا فتویٰ لگانا لمحوں کا کام ہے، لیکن جب انہی کی صفوں میں کوئی قاری، کوئی مفتی، یا کوئی مدرس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرے، تو “تحقیق جاری ہے”، “یہ میڈیا کا پروپیگنڈہ ہے”، یا “ہمیں علما کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے” جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں۔
مظلوم کی فریاد اور سماج کا رویہ
بچے کی والدہ جب درد کے مارے تڑپتے ہوئے اپنے بیٹے کو اسپتال لے گئیں تو وہ خاموشی نہیں کر سکی۔ بچے نے روتے ہوئے اپنی ماں کو بتایا کہ قاری صاحب نے اسے کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ اگر کسی کو بتایا تو جان سے مار دوں گا۔ ذرا سوچیں، ایک نابینا بچہ، جو مسجد میں قرآن سیکھنے آیا، اللہ کے گھر میں اللہ کی کتاب کے ساتھ وابستہ ہوا، اسی جگہ اس کی عزت پامال کی گئی۔ کیا یہ توہینِ دین نہیں؟ کیا یہ گستاخی نہیں؟
سوشل میڈیا پر عوامی غم و غصہ
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر عوام نے بھرپور غصہ ظاہر کیا۔ قاری نور خلیل کی تصویر اور بچے کی حالت بیان کرتی ویڈیوز سامنے آئیں، مگر علما کی خاموشی اور حکومتی اداروں کی بےحسی نے اس معاملے کو بھی جلد ٹھنڈا کر دیا۔
ایسے مواقع پر مولوی برادری کو چاہیے کہ ظالم کا دفاع کرنے کے بجائے مظلوم کا ساتھ دیں، تاکہ عوام کا دینی اداروں پر اعتماد بحال ہو۔ لیکن یہاں تو معاملہ الٹا ہے، نہ صرف قاری کی گرفتاری کو دبایا جا رہا ہے بلکہ بعض حلقوں کی جانب سے مظلوم بچے کی ماں کو بھی خاموش رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
دین کے علمبردار یا ظلم کے محافظ؟
اگر دین کے علمبردار خود ظالموں کے لیے خاموشی اختیار کریں گے تو عام آدمی کا دین، مسجد، اور مدرسے سے کیا رشتہ باقی رہے گا؟ اگر علمائے کرام واقعی خدا کے دین کے محافظ ہیں تو ان کا سب سے پہلا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر موجود گند کو صاف کریں، نہ کہ اسے قالین کے نیچے چھپا دیں۔
علما کی خاموشی اس جرم کو تقویت دیتی ہے۔ اگر ایک مولوی کسی بچے کی عزت سے کھیلتا ہے اور دوسرا مولوی اس پر خاموش رہتا ہے، تو وہ خاموش مولوی بھی اسی گناہ میں شریک ہے۔
نتیجہ: اب خاموشی نہیں، احتساب چاہیے
پاکستانی قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم دین کے نام پر ہونے والے مظالم پر کب تک خاموش رہیں گے؟ کب تک ہم مسجدوں کو، جو کہ اللہ کا گھر ہیں، درندوں کی پناہ گاہ بننے دیں گے؟ ہمیں نہ صرف ایسے ملزم قاریوں کا سوشل بائیکاٹ کرنا ہوگا بلکہ ان مولویوں کو بھی بےنقاب کرنا ہوگا جو ان مجرموں کی حمایت میں خاموش رہتے ہیں۔
یہ وقت ہے جاگنے کا، سوال اٹھانے کا، اور مطالبہ کرنے کا کہ:
- قاری نور خلیل کو فوری گرفتار کر کے نشانِ عبرت بنایا جائے۔
- مدرسوں میں بچوں کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔
- علما کو ایسے جرائم پر فتویٰ جاری کرنا چاہیے، نہ کہ مجرمانہ خاموشی۔
تحریر: رانا علی فیصل
(آپ اس مضمون کو کاپی نہ کریں بلکہ شیئر کریں، تاکہ ظلم کے خلاف آواز بلند ہو)

ہمیں واٹس ایپ چینل پر فالو کریں:
https://www.whatsapp.com/channel/0029Vb6JguX7Noa8rFhJpK1A
Ask ChatGPT
