
✍️ تحریر: رانا علی فیصل | حقیقت پاکستان
21 جولائی 2025 کو خیبرپختونخوا (KPK) میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ایک عجیب منظر سامنے آیا: تمام 11 نشستیں بلا مقابلہ بھر دی گئیں — نہ ووٹ، نہ عوامی نمائندگی، نہ شفافیت، بس ایک “مفاہمت” جس کا پردہ اُٹھانا اب ضروری ہے۔
🔍 پس منظر: ملتوی سے مفاہمت تک
یہ وہی سینیٹ انتخابات تھے جو مارچ 2024 میں مؤخر کر دیے گئے تھے، کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی حکومت نے مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین اور اقلیتی اراکین کو حلف نہ لینے دیا، جس کے نتیجے میں انتخابی کالج مکمل نہ ہوا۔ عدالتی احکامات، سیاسی دباؤ اور تنقید کے بعد بالآخر جولائی 2025 میں فیصلہ ہوا کہ تمام نشستیں بغیر ووٹ کے پرُ ہوں گی۔
🏆 کامیاب امیدواروں کی مکمل فہرست
امیدوار کا نام | نشست | پارٹی | پس منظر |
---|---|---|---|
مراد سعید | جنرل | پی ٹی آئی | سابق وفاقی وزیر، پی ٹی آئی کا جارح مزاج چہرہ |
فیصل جاوید خان | جنرل | پی ٹی آئی | میڈیا فرنٹ مین، سوشل میڈیا پر فعال |
مرزا محمد آفریدی | جنرل | آزاد (اسٹیبلشمنٹ حمایت یافتہ) | ماضی میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، مالدار اور بااثر |
پیر نورالحق قادری | جنرل | پی ٹی آئی | سابق وزیر مذہبی امور، فاٹا سے تعلق |
اعظم سواتی | ٹیکنوکریٹ | پی ٹی آئی | متنازع سینیٹر، عدلیہ سے ٹکراؤ کی تاریخ |
روبینہ ناز | خواتین | پی ٹی آئی | پہلی بار سینیٹ میں، پارٹی ترجیح |
مشعال یوسفزئی | ٹیکنوکریٹ | پی ٹی آئی | سوشل ورکر، ثانیہ نشتر کی جگہ |
مولانا عطا الحق درویش | جنرل | جے یو آئی (اپوزیشن) | پرانے اتحادی، تجربہ کار |
نیاز احمد | جنرل | پیپلز پارٹی | پیپلز پارٹی کا لوئر دیر سے نمائندہ |
دلور خان | جنرل | مسلم لیگ (ن) | ماضی میں بھی سینیٹر، کاروباری شخصیت |
روبینہ خالد | خواتین | پیپلز پارٹی | سابقہ سینیٹر، تجربہ کار اور نرم لہجے والی رہنما |
❌ ہارنے والے کون تھے؟
یہ سب نشستیں بلا مقابلہ ہونے کے باعث کسی کا باقاعدہ “ہارنا” تو ریکارڈ پر نہیں آیا، لیکن اندرونی ذرائع کے مطابق:
- پی ٹی آئی کے کئی ناراض امیدوار، جنہوں نے خود کو نامزد کروایا تھا، پارٹی کی ہدایت پر دستبردار ہو گئے
- کچھ امیدواروں نے پیسہ نہ ہونے کی بنیاد پر الیکشن فارم ہی واپس لے لیا
- خصوصاً مرزا آفریدی کی واپسی نے اندرونی سطح پر کئی سوالات کھڑے کیے
🕵️♂️ مرزا آفریدی کا کیس — “پیسہ ہو تو سب معاف”
مرزا آفریدی، جو ماضی میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ رہ چکے ہیں، نے گزشتہ برس پی ٹی آئی کو ایسے وقت میں چھوڑا جب پارٹی دیوار سے لگ چکی تھی۔ ان پر ہمیشہ یہ الزام رہا کہ وہ
اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین اور سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ:
👉 ایک ایسا شخص جو مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑ جائے
👉 جس کے پاس مال، تعلقات، اور ریاستی رسائی ہو
…کیا وہ واقعی “عوام کا نمائندہ” ہو سکتا ہے؟
یہی ہمارا سسٹم ہے — جہاں اگر آپ کے پاس پیسہ ہو تو آپ کے تمام “سیاسی گناہ” معاف ہو سکتے ہیں۔ اور اگر آپ عام آدمی ہوں؟ تو چالان، مقدمات اور جیل آپ کا مقدر۔
🧨 یہ جمہوریت نہیں، مفاہمت کی تماشہ بازی ہے
بلا مقابلہ انتخابات بظاہر “اتفاق رائے” کا مظاہرہ ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ:
- ووٹر کی توہین ہے
- جمہوری عمل کی لاش ہے
- اسٹیبلشمنٹ کے “خاموش کردار” کا ثبوت ہے
- پارٹیوں کے اندر مالی اور نظریاتی فرق کو عیاں کرتا ہے
🗣️ عوام کو کیا ملا؟
نہ کوئی انتخابی مہم، نہ منشور، نہ عوامی وعدے
نہ میڈیا پر بحث، نہ اپوزیشن کی تنقید
بس ایک رات خاموشی سے فیصلہ، صبح ناموں کا اعلان
یہی ہے ہمارا “جمہوری نظام” — جس میں اصل حق دار صرف وہ ہوتا ہے جو طاقتور، دولت مند، یا بااثر ہو۔
📣 اختتامی نوٹ: عوام اب جاگے گی؟
یہ آرٹیکل ایک سوال چھوڑتا ہے:
کیا آپ ایسی جمہوریت کے حق میں ہیں جہاں امیدوار بغیر مقابلے، بغیر عوامی مشورے، اور بغیر اخلاقی وزن کے منتخب ہو جائیں؟
فیصلہ آپ کا ہے… مگر سچ بولنا ہمارا فرض۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سسٹم صرف سیاستدانوں کا کھیل ہے تو ایک نظر ہماری اس تحقیق پر بھی ڈالیں، جس میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی لڑکیوں کی ویڈیوز کے پیچھے کا سچ بیان کیا گیا ہے۔
👉 “ویڈیو وائرل ہو چکی ہے… اب تمہاری غیرت کا امتحان ہے!”
📢 ہماری آواز بنیں!
اگر آپ سچ پر مبنی خبروں، تجزیوں اور عوامی مسائل کی اصل حقیقت سے جڑے رہنا چاہتے ہیں تو ہمارا WhatsApp چینل ضرور جوائن کریں:
👉 Rana Ali Faisal WhatsApp چینل