"قرآن کی روشنی میں اتحادِ امت کا پیغام – فرقہ واریت کے خلاف اسلامی بصیرت"

“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا”
(اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو)
— سورۃ آل عمران، آیت 103
آج کا مسلمان قرآن کا قاری ہے، مگر کردار میں قرآن سے کوسوں دور۔
اسلام نے ہمیں اتحاد، محبت اور بھائی چارے کا درس دیا، لیکن ہم نے اسے “فرقوں” میں بانٹ کر اپنی اصل روح کھو دی۔
ہم نے دینِ اسلام کو اپنے مسلک کی چار دیواری میں قید کر لیا۔
اب نہ ہم دین کو اللہ کے نازل کردہ طور پر پڑھتے ہیں،
نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو سرچشمہ ہدایت سمجھتے ہیں —
بلکہ اپنے “فرقے” کی فکر کو دین بنا بیٹھے ہیں۔
🔹 فرقہ واریت: ایک زہر جو امت کو کھا رہا ہے
اسلام نے کبھی بھی:
سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث جیسے نام نہیں رکھے
یہ سب تقسیم بعد میں انسانوں کی پیدا کردہ ہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، اور صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا۔”
صحابہ نے عرض کی: “یا رسول اللہ! وہ کون سا ہوگا؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
“جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گا۔”
(ترمذی، حدیث 2641)
کیا ہم واقعی اسی طریقے پر ہیں؟
🔹 قرآن کا اصل پیغام: ایک امت، ایک رب، ایک کتاب
قرآن ہمیں بار بار ایک ہونے کا حکم دیتا ہے:
“إِنَّ هَـٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمۡ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمۡ فَٱعۡبُدُونِ”
(یقیناً یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری ہی عبادت کرو)
— سورۃ الأنبیاء، آیت 92
ہم نے فرقے بنا کر اپنی شناخت کو چھوٹا کر لیا۔
اب مسلمان پہلے “بریلوی” یا “دیوبندی” بنتا ہے، بعد میں “مسلمان”۔
🔹 حل کیا ہے؟
قرآن اور حدیث کی طرف واپسی — بغیر تعصب، بغیر مفادات
فرقہ پرست علماء سے دوری — جو نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں
اسلام کی اصل روح کو سمجھنا — جو اخوت، محبت اور عدل ہے
امت کی فلاح پر بات کرنا — لاشوں پر فتویٰ نہیں، زندوں کی اصلاح
💚 آخر میں:
اسلام کے دشمنوں کو ہماری تلواروں سے نہیں، ہمارے اختلافات سے فتح حاصل ہوتی ہے۔
اگر ہم متحد ہو جائیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جھکا نہیں سکتی۔
🌙 آئیے، “حقیقتِ اسلام” کو سمجھیں —
ایسا اسلام جو فرقہ پرستی سے پاک، محبت سے بھرپور، اور قرآن و سنت کی روشنی سے منور ہو۔


حقیقتِ پاکستان کے واٹس ایپ چینل کو فالو کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *