قرآن کی روشنی میں اصل آزادی کی حقیقت

0

✍️ تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: یہاں کلک کریں اور جوائن کریں


تمہید

انسان جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ مختلف بندھنوں میں جکڑا ہوتا ہے: معاشرتی، معاشی، نفسیاتی اور روحانی۔ ہر شخص آزادی چاہتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اصل آزادی کیا ہے؟ کیا یہ صرف جسمانی قید سے نکلنے کا نام ہے یا دل و دماغ کی غلامی سے چھٹکارا پانے کا؟
قرآن پاک ہمیں وہ راستہ دکھاتا ہے جو انسان کو نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی غلامی سے بھی آزاد کرتا ہے۔


آزادی کا تصور – دنیاوی اور اسلامی تناظر

دنیاوی فلسفہ آزادی کو زیادہ تر خواہشات کی تکمیل اور ذاتی مرضی کے تابع مانتا ہے۔ لیکن قرآن کے مطابق حقیقی آزادی تب ملتی ہے جب انسان صرف اللہ کی بندگی کو اختیار کرتا ہے۔

“وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ” (الذاریات: 56)
اللہ فرماتا ہے کہ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ یعنی اصل مقصد بندگی ہے اور یہی بندگی آزادی کا راستہ ہے۔


قرآن میں آزادی کے بنیادی پہلو

  1. شرک سے آزادی – قرآن سب سے پہلے انسان کو باطل خداؤں، جھوٹے بتوں اور خود ساختہ نظریات سے آزاد کرتا ہے۔
  2. نفس کی غلامی سے آزادی – انسان جب اپنی خواہشات کا غلام بن جائے تو وہ اصل میں آزاد نہیں رہتا۔
  3. ظلم و جبر سے آزادی – قرآن عدل کا حکم دیتا ہے اور ظلم کی ہر صورت کو ختم کرتا ہے۔
  4. علم کے ذریعے آزادی – پہلی وحی “اقرأ” کا پیغام ہی اس بات کی علامت ہے کہ جہالت سب سے بڑی غلامی ہے۔

آزادی اور ایمان کا تعلق

ایمان انسان کو اندرونی سکون عطا کرتا ہے۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے وہ دنیا کے دباؤ اور خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

“أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ” (الرعد: 28)
دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔


آزادی کے قرآنی نمونے

قرآن میں کئی انبیاء کے قصے آزادی کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں:

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کو آزاد کروایا۔
  • حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باپ دادا کے جھوٹے معبودوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
  • نبی اکرم ﷺ نے عرب کو جاہلیت کی غلامی سے نکال کر ایمان و عدل کی روشنی عطا کی۔

یہ سب انبیاء اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ اصل آزادی اللہ کی اطاعت میں ہے۔


آزادی اور عدل

قرآن کے مطابق آزادی صرف فرد کا حق نہیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ جب تک معاشرے میں انصاف قائم نہ ہو، کسی کو حقیقی آزادی نہیں مل سکتی۔

“إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ” (النحل: 90)


آج کے دور میں اصل آزادی

آج انسان بظاہر آزاد ہے مگر وہ:

  • مادیت پرستی کا غلام ہے،
  • سوشل میڈیا کی اندھی تقلید کا غلام ہے،
  • نفس اور خواہشات کا غلام ہے۔

قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم اللہ کی ہدایت کو چھوڑ دیں گے تو خواہشات اور دنیاوی دباؤ کی غلامی میں جکڑے رہیں گے۔


نوجوان نسل اور آزادی کا غلط تصور

نوجوان سمجھتے ہیں کہ آزادی کا مطلب ہے بے پردگی، من مانی اور حدود سے تجاوز۔ لیکن یہ دراصل نفس کی غلامی ہے۔ قرآن اس کے برعکس ہمیں حدود اللہ کا پاس کرنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ یہی حدود اصل آزادی کی ضمانت ہیں۔


حقیقی آزادی کے ثمرات

  1. دل کا سکون اور روح کا اطمینان۔
  2. معاشرتی عدل اور مساوات۔
  3. ظلم، ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ۔
  4. جہالت اور اندھی تقلید سے نجات۔
  5. انسانیت کے لیے مثبت کردار۔

نتیجہ

قرآن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل آزادی صرف اللہ کی بندگی میں ہے۔ جو شخص اللہ کی اطاعت کرتا ہے وہ کسی انسان، خواہش یا دنیاوی طاقت کا غلام نہیں رہتا۔ آزادی کا مطلب ہے:

  • حق کو پہچاننا،
  • باطل کو رد کرنا،
  • عدل قائم کرنا،
  • اور نفس کی غلامی سے نکلنا۔

آج کے دور میں اگر ہم قرآن کی طرف لوٹ آئیں تو ہمیں نہ صرف اندرونی سکون ملے گا بلکہ ایک عادل اور آزاد معاشرہ بھی قائم ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *