باجوڑ کے زخم: دہشتگردی کے بعد ریاستی بے حسی کا المیہ

0

🖋️ تحریر از: رانا علی فیصل

www.ranaaliofficial.com

جب کسی قوم پر ایک طرف دہشتگرد بم برسائیں، اور دوسری طرف اپنی ریاست کے توپ و تفنگ، تو پھر یہ سوال بنتا ہے: آخر دشمن کون ہے؟

باجوڑ، وہ خطہ جہاں پاکستان کی سرحدیں افغانستان سے جاملتی ہیں، جہاں کبھی روایات کی مہک تھی، اب صرف بارود کی بو باقی رہ گئی ہے۔ جولائی 2025 میں ایک بار پھر باجوڑ کی سرزمین نے اپنے باسیوں کی لاشیں اٹھائیں۔ مگر اس بار صرف دہشتگردوں کا نشانہ ہی نہیں، بلکہ ریاستی آپریشنز کا نشانہ بھی وہی مظلوم عوام بنے۔


📍 پہلا زخم: دہشتگردی کا حملہ، حکومتی اہلکار شہید

2 جولائی کو باجوڑ کے علاقے ناواگئی میں ہونے والے IED دھماکے نے Assistant Commissioner، تحصیلدار، ایک سبیدار اور پولیس اہلکار کی جان لے لی۔ یہ حملہ ریاست کے اداروں کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔ مگر اس واقعے کے بعد جو ہوا، وہ شاید حملے سے بھی زیادہ المناک تھا۔


📍 دوسرا زخم: ریاستی آپریشن — دشمن دہشتگرد یا عام عوام؟

ریاستی مشینری حرکت میں آئی۔ “آپریشن سربکف” کے نام سے Lowi Mamund میں سیکیورٹی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ مگر جو کچھ رپورٹ ہوا وہ ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا:

  • دو معصوم شہری شہید
  • ایک بچہ اور خاتون سمیت متعدد زخمی
  • مکانات تباہ
  • گاڑیوں پر فائرنگ
  • عورتوں اور بچوں میں خوف و ہراس

کیا یہ وہی ریاست ہے جو اپنے شہریوں کی حفاظت کا حلف اٹھاتی ہے؟ اگر دہشتگرد حملہ ایک ظلم تھا، تو ریاستی ردِ عمل اس ظلم پر ظلم کی مانند کیوں محسوس ہوا؟


📍 تیسرا زخم: کرفیو — ظلم پر خاموشی تھوپنا

جب عوام نے مظلومیت پر صدائے احتجاج بلند کی، تو جواب میں آیا “کرفیو”۔
باجوڑ کے 16 مقامات پر کرفیو لگا دیا گیا۔
نہ روٹی، نہ دوا، نہ نقل و حرکت کی اجازت۔
یہ کرفیو ظاہری سیکیورٹی کے لیے تھا، مگر درحقیقت وہ آوازیں دبانے کے لیے تھا جو “کیوں؟” پوچھ رہی تھیں۔


❗ حقیقت یہ ہے…

باجوڑ کے باسی دہشتگردوں کے بھی نشانے پر ہیں، اور ریاستی فیصلوں کے بھی۔
ایسا لگتا ہے جیسے باجوڑ کو تجربہ گاہ سمجھا جا رہا ہو۔
جہاں انسانیت کو نظرانداز کر کے صرف “آپریشنل اہداف” حاصل کیے جاتے ہیں۔


📢 میرا سوال ریاست سے:

  1. اگر دہشتگردوں نے ظلم کیا تو جواب عام شہری کیوں بھگتیں؟
  2. کیا ریاستی کارروائیاں آئینی دائرے میں تھیں؟
  3. زخمی بچوں، شہید عورتوں اور تباہ گھروں کا حساب کون دے گا؟
  4. کیا کرفیو کا اطلاق مسئلہ کا حل تھا، یا درد کا پردہ؟

🔥 ایک قوم کا امتحان

یہ تحریر صرف مظلوموں کی ترجمانی نہیں بلکہ ہم سب کے ضمیر کی پکار ہے۔
اگر آج باجوڑ کے زخم پر ہم نے مرہم نہ رکھا، تو کل کو ہمارا وجود بھی اسی لاپرواہی کا شکار ہوگا۔


📣 میری قوم سے اپیل:

آج اگر باجوڑ کی آواز نہ سنی گئی، تو کل یہ ظلم دوسرے شہروں میں اترے گا۔
اپنی زبان کو مت روکیے، اپنی ضمیر کو مت سلائیے۔
بولو! ظلم کے خلاف، حق کے لیے، انسانیت کے واسطے۔

“پشتون قوم ہمیشہ سے قربانیوں کی علامت رہی ہے، چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو یا دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن کردار — اس مکمل جدوجہد کو یہاں پڑھیں۔”

“مزید سچ پر مبنی خبریں، تجزیے اور تحریریں روزانہ حاصل کرنے کے لیے میرے آفیشل WhatsApp چینل سے ضرور جڑیں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *