“جھوٹ کا بیانیہ، سچ کی سزا — 9 مئی اور 26 نومبر کا خون آلود سچ”

✍️ تحریر: رانا علی فیصل
تمہید
ریاست اگر سچ کو جرم قرار دے دے اور جھوٹ کو بیانیہ، تو وہاں ہر مظلوم غدار کہلاتا ہے اور ہر ظالم محبِ وطن۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 دو ایسے سیاہ دن ہیں، جنہوں نے ظلم، سیاسی انتقام اور آئینی بربادی کی نئی تاریخ رقم کی۔ 9 مئی کا واقعہ صرف ایک احتجاج نہیں، بلکہ ایک منصوبہ بند جبر کی شروعات تھی — جس کا اختتام آج بھی جاری ہے۔
1: 9 مئی — سازش یا سچائی کا قتل؟
9 مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر NAB کے اہلکاروں نے گرفتار کیا۔ اُسی وقت ملک بھر میں PTI کارکنوں نے احتجاج شروع کیا۔ احتجاج بعض مقامات پر پرتشدد ہو گیا — مگر حیرت انگیز طور پر عمران خان اُس وقت خود NAB کی قید میں تھے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے:
جب قائد خود جیل میں ہو، تو کیا وہ اپنے کارکنوں کو ہدایات دے سکتا ہے؟
مگر ریاستی اداروں نے عمران خان کو ہی مرکزی “ماسٹر مائنڈ” قرار دیا، اور یوں ایک جھوٹے بیانیے کی بنیاد پڑی — جسے میڈیا، حکومتی ترجمانوں، اور مخصوص عدالتی فیصلوں کے ذریعے عوام پر مسلط کر دیا گیا۔
2: جھوٹے گواہ، پولیس کے من گھڑت بیانات
مقدمات میں پولیس کی طرف سے دیے گئے گواہوں میں کئی نے عدالت میں اپنے بیانات واپس لے لیے۔ مشہور “شیڑپاؤ پل کیس” میں پولیس کانسٹیبل نے کہا:
“مجھ پر دباؤ تھا کہ عمران خان کے خلاف بیان دوں، حقیقت یہ ہے کہ میں نے موقع پر کچھ نہیں دیکھا۔”
یہ جھوٹے گواہ صرف انتقام کی سیاست کو قانونی رنگ دینے کے لیے استعمال کیے گئے۔ عدالتوں نے ان جھوٹے بیانات پر ہی فیصلے سنائے، اور درجنوں کارکنوں کو سالوں کی سزائیں دے دی گئیں۔
3: ڈاکٹر یاسمین راشد — ایک بہادر عورت پر ظلم کی انتہا
72 سالہ کینسر سروائیور ڈاکٹر یاسمین راشد نے زندگی کا بڑا حصہ عوامی خدمت میں گزارا، مگر انہیں “ریاست دشمن” بنا دیا گیا۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ کور کمانڈر ہاؤس حملے کی محرک تھیں، جبکہ ویڈیوز میں وہ لوگوں کو روک رہی ہیں:
“یہ اداروں کی عمارت ہے، یہاں مت جاؤ۔”
مگر عدالت نے ان ثبوتوں کو نظرانداز کیا اور انہیں 10 سال قید کی سزا سنا دی۔ دورانِ حراست ان پر جسمانی و ذہنی تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے۔ انہیں جیل میں بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا۔
4: خواتین کارکنان کی تذلیل
- درجنوں خواتین، جن میں نوجوان طالبات سے لے کر بزرگ خواتین تک شامل تھیں، کو رات کے اندھیرے میں گھروں سے اُٹھایا گیا۔
- عدالت میں پیشی سے پہلے ان پر دباؤ ڈال کر “معافی نامے” اور “بیاناتِ ندامت” لکھوائے گئے۔
- کئی خواتین کو جیل میں برہنہ تلاشی، ذاتی سوالات، اور جسمانی تذلیل جیسے ظلم سہنے پڑے — جن پر ریاست خاموش رہی۔
5: ملٹری کورٹس — آئین سے انحراف
حکومت نے کئی مقدمات کو فوجی عدالتوں میں منتقل کیا، جو کہ آئین کے آرٹیکل 10-A (منصفانہ ٹرائل کا حق) کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے ان ٹرائلز کو غیر آئینی قرار دے دیا، مگر تب تک کئی شہریوں کو سزائیں سنائی جا چکی تھیں۔
6: بے گناہ لاپتہ افراد، اذیت اور تشدد
- 9 مئی کے بعد سے 10,000 سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔
- سینکڑوں افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے — ان میں سے بعض آج تک واپس نہیں آئے۔
- پولیس حراست میں تشدد، زبردستی بیانات، اور ذہنی اذیت کا معمول بن چکا تھا۔
- کارکنان کو یہ کہہ کر مارا گیا: “خان سے ناطہ توڑ لو، ورنہ لاش بن جاؤ گے۔”
7: 26 نومبر 2024 — ریاستی فسطائیت کی انتہا
اسلام آباد میں ہونے والے پرامن مظاہرے پر سیکیورٹی فورسز نے اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ PTI کے مطابق:
“12 کارکن شہید ہوئے، 50 سے زائد زخمی، سینکڑوں گرفتار۔”
جبکہ حکومت نے صرف “4 فوجی اہلکاروں” کی ہلاکت رپورٹ کی، اور مظاہرین کو “دہشتگرد” قرار دیا۔
عالمی تنظیموں کا ردعمل:
- Amnesty International نے کہا: “پاکستان میں سویلین مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال انسانی حقوق کی سنگین خلاف
- ورزی ہے۔”
- HRCP نے حکومت سے فورس کے استعمال کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
8: میڈیا بلیک آؤٹ اور یکطرفہ بیانیہ
تمام بڑے چینلز نے 9 مئی کے بعد سے PTI کے مؤقف کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کر دیا۔ صرف سرکاری بیانیہ، پولیس فوٹیجز اور وزیر داخلہ کے بیانات دکھائے گئے۔ آزادیٔ اظہار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ صحافیوں کو بھی دھمکیاں دی گئیں۔
9: بری ہونے والوں کی فہرست — ریاستی تضاد
جن رہنماؤں نے پارٹی چھوڑ دی، جیسے کہ:
- فیاض الحسن چوہان
- عامر کیانی
- فردوس عاشق اعوان
انہیں یا تو بری کر دیا گیا یا ان کے خلاف مقدمات بند ہو گئے۔
جبکہ جنہوں نے وفاداری نبھائی، جیسے:
- یاسمین راشد
- چعھدری اعجاز
- عمر سرفراز چیمہ
کو طویل سزائیں سنائی گئیں۔ یہ تضاد انصاف نہیں، انتقام کا ثبوت ہے۔
نتیجہ: ظلم کے بیانیے کا پردہ چاک
یہ سارا منظرنامہ ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے:
“ریاست نے سیاسی مخالفت کو غداری، احتجاج کو بغاوت، اور وفاداری کو جرم بنا دیا۔”
قوم کو بتایا گیا کہ “9 مئی پاکستان کی 9/11 ہے” — مگر حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی ظلم کا دن تھا، سچ کے قتل کا دن۔ اور 26 نومبر، آئین کی آخری سانسیں۔
آخری پیغام
یہ تحریر اُن ہزاروں کارکنان کے نام ہے جو آج بھی جیلوں میں صرف اس لیے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کا نعرہ لگایا۔ یہ سچ اُن ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا ہے جنہیں بےحرمتی اور قید کے ذریعے جھکانے کی کوشش کی گئی۔
ظلم کا نظام جتنا مرضی طاقتور ہو،
سچ ایک دن لوٹ آتا ہے… اور تب انصاف صرف عدالتی نہیں، تاریخی ہوتا ہے۔
اگر آپ نے ابھی تک 9 مئی کے بعد کی فوجی عدالتوں کے خلاف عدالتی فیصلے پر مبنی مکمل تجزیہ نہیں پڑھا تو یہ آرٹیکل ضرور دیکھیں:
➡️ فوجی عدالتیں اور انصاف کا گلا گھونٹنے کی تاریخ
9 مئی اور 26 نومبر پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کا مؤقف پڑھنے کے لیے Amnesty International کی رپورٹ دیکھیں:
➡️ Amnesty.org پر مکمل رپورٹ
تازہ ترین سیاسی تجزیے، بےباک تحریریں، اور حق پر مبنی خبروں کے لیے میرے آفیشل واٹس ایپ چینل سے جڑیں:
🟢 Join WhatsApp Channel
مراد سعید پر ہونے والے مظالم اور ان کی جدوجہد کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔