اسلام: امن، عدل اور انسانیت کا دین

0

اسلام: امن، عدل اور انسانیت کا دین

ابتدائیہ

دنیا کی تاریخ میں جب بھی انسان نے انصاف، مساوات اور امن کی تلاش کی، اللہ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اسے رہنمائی عطا کی۔ آخر کار یہ سلسلہ نبی کریم ﷺ پر ختم ہوا اور اسلام کی شکل میں ایک ایسا مکمل دین عطا ہوا جس نے نہ صرف عبادات بلکہ معیشت، سیاست، معاشرت، تعلیم، اخلاق، سائنس، ثقافت اور قانون تک ہر پہلو کے لیے واضح اصول دیے۔
اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کو اُس کے خالق سے جوڑا جائے، اور انسانیت کو ظلم و ناانصافی سے نکال کر امن، عدل اور محبت کی راہ پر ڈالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں صاف طور پر اعلان کیا گیا:

“اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ، اللہ کے واسطے گواہی دیتے ہوئے، خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔” (النساء: 135)

یہ آیت اسلام کی عدل پسندی اور حق گوئی کا سب سے روشن ثبوت ہے۔


اسلام کا اصل فلسفہ امن

اسلام کا مطلب ہی “سلامتی” اور “امن” ہے۔ جس دین کا نام ہی امن ہو، وہ کیسے ظلم یا دہشت کی تعلیم دے سکتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں امن میں رہیں۔”

یہ تعلیم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔
اسلام نے جنگ کو صرف دفاع کے لیے جائز رکھا، وہ بھی سخت شرائط کے ساتھ: عورتوں، بچوں، بوڑھوں، عبادت گاہوں اور کھیتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ اصول دنیا کے کسی اور مذہب یا قانون نے اس وضاحت سے نہیں دیے۔

آج اگر دنیا میں کہیں مسلمان یا غیر مسلم ظلم کا شکار ہیں تو یہ اسلام کی تعلیمات سے انحراف ہے، نہ کہ اسلام کی اصل۔ اسلام ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔

عدل و انصاف کی اہمیت

اسلام میں عدل کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ قرآن مجید بار بار عدل کا حکم دیتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“بیشک اللہ عدل، احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔” (النحل: 90)

عدل صرف عدالت یا حکمرانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد کی زندگی میں اس کا نفاذ ضروری ہے۔ ایک باپ اپنے بچوں کے درمیان انصاف کرے، ایک تاجر اپنے خریداروں کے ساتھ عدل کرے، ایک استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ انصاف کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“قیامت کے دن سب سے زیادہ محبوب وہ ہوگا جو عدل کرنے والا حکمران ہوگا۔”

یہی عدل معاشرے کو مضبوط کرتا ہے اور ظلم کو کم کرتا ہے۔ جب عدل ختم ہو جائے تو معاشرے میں طاقتور مزید طاقتور اور کمزور مزید کمزور ہو جاتے ہیں، جیسا کہ آج دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے۔


انسانی مساوات

اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ انسانی مساوات ہے۔ اُس زمانے میں جب دنیا غلامی، رنگ و نسل کی تفریق اور قبیلے پر فخر میں ڈوبی ہوئی تھی، اسلام نے اعلان کیا:

“اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔” (الحجرات: 13)

اس آیت نے نسل پرستی، قبیلے پر فخر اور دولت کی بنیاد پر برتری کو جڑ سے کاٹ دیا۔ اسلام نے کہا کہ کوئی عربی کسی عجمی پر فضیلت نہیں رکھتا، نہ سفید کالے پر اور نہ کالا سفید پر، سوائے تقویٰ کے۔

غلاموں کو آزاد کرانا اور ان کے ساتھ عزت سے پیش آنا اسلام کے بنیادی احکام میں شامل تھا۔ حضرت بلال حبشیؓ، جو ایک غلام تھے، اسلام کے سپہ سالار اور مؤذن بنے۔ یہ اسلام کی مساوات کی زندہ مثال ہے۔


سیرت النبی ﷺ کی روشن مثالیں

نبی کریم ﷺ کی زندگی عدل اور رواداری کا عملی نمونہ تھی۔ چند واقعات:

  1. صلحِ حدیبیہ: دشمن کے ساتھ بھی امن کے معاہدے پر قائم رہنا، حالانکہ شرائط سخت تھیں۔
  2. فتحِ مکہ: جب آپ ﷺ کے پاس طاقت آ گئی تو آپ نے اُن سب دشمنوں کو معاف کر دیا جنہوں نے مکہ میں ظلم کیے تھے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مثال ہے کہ طاقت کے باوجود بدلہ نہ لیا بلکہ عفو و درگزر کو اپنایا۔
  3. اقلیتوں کے حقوق: نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں ان کے مذہبی حقوق اور جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔

یہ سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کا اصل مقصد دشمنی نہیں بلکہ امن، عدل اور بھائی چارہ ہے۔

پاکستان میں معاشرتی حالات اور عوام پر مظالم

پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ یہاں عوام کو عدل و انصاف ملے، ہر شہری کو برابر کا حق دیا جائے اور ظلم کے نظام کو ختم کیا جائے۔ مگر افسوس کہ حقیقت اس خواب سے کافی دور ہے۔

پاکستان میں عام آدمی کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے:

  1. معاشی دباؤ – مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ایک مزدور دن بھر محنت کرتا ہے لیکن گھر کے خرچے پورے نہیں ہوتے۔
  2. سیاسی دباؤ – جب عوام اپنے حق میں آواز اٹھاتے ہیں تو اکثر انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے، یا بعض اوقات ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
  3. ادارہ جاتی رویے – طاقتور طبقے اور ادارے اکثر کمزور شہریوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔ عام شہری کے لیے انصاف لینا مشکل ترین بن گیا ہے۔
  4. اظہارِ رائے کی پابندیاں – پاکستان میں کئی صحافی، طالب علم اور کارکن یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں کھل کر بولنے نہیں دیا جاتا۔ جہاں حق کی آواز بلند کرنا ایک جرم بن جائے، وہاں معاشرے میں خوف اور جمود پھیل جاتا ہے۔

یہ وہ حالات ہیں جنہیں دیکھ کر دل دکھتا ہے، کیونکہ یہ اسلام کی اصل تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں۔ اسلام تو کہتا ہے کہ:

“ظلم کرنے والے کی مدد کرو اور مظلوم کی بھی مدد کرو۔”
صحابہؓ نے پوچھا: “یا رسول اللہ! مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے، مگر ظالم کی مدد کیسے کریں؟”
آپ ﷺ نے فرمایا: “اسے ظلم کرنے سے روک دو، یہی اس کی مدد ہے۔”


اسلام کا موقف

اسلام کی روشنی میں جو ریاست عدل قائم نہ کرے اور اپنے عوام کو دبائے، وہ اللہ کے نزدیک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید میں ہے:

“اور جو لوگ ظلم کرتے ہیں وہ جلد ہی جان لیں گے کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔” (الشعراء: 227)

اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ عوام کو صبر کے ساتھ ساتھ حق کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ مگر یہ جدوجہد ہمیشہ پرامن، دانشمندانہ اور قانونی طریقے سے ہونی چاہیے۔ طاقت کے زور پر یا تشدد کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔


پاکستانی عوام کی ذمہ داری

  1. تعلیم حاصل کریں اور اپنے حقوق پہچانیں۔
  2. پرامن ذرائع سے اپنی آواز بلند کریں۔
  3. انصاف اور عدل کے لیے اجتماعی کوشش کریں۔
  4. ظلم کو دیکھ کر خاموش نہ رہیں، کیونکہ خاموشی بھی ظلم کی حمایت ہوتی ہے۔

اسلامی ریاست کی اصل تصویر

اسلامی ریاست کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے، اُن کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی جائے، اور کمزور کو سہارا دیا جائے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت کو آج بھی دنیا میں بہترین حکمرانی کی مثال سمجھا جاتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا:

“اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”

یہ وہ احساسِ ذمہ داری ہے جو ایک اسلامی حکمران کے دل میں ہونا چاہیے۔ اسلامی ریاست کے پانچ بڑے اصول ہیں:

  1. عدل و انصاف کا قیام
  2. مساوات اور بھائی چارہ
  3. عوام کی جان و مال کی حفاظت
  4. علم اور تعلیم کی ترویج
  5. اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ

اصلاح کا راستہ

پاکستان میں اصلاح کے لیے چند عملی اقدامات ناگزیر ہیں:

  1. تعلیمی انقلاب – تعلیم ہی قوموں کو بدلتی ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے “اقرأ” یعنی پڑھنے کا حکم دیا۔
  2. شفاف عدالتی نظام – ایسا نظام ہونا چاہیے جہاں کمزور بھی طاقتور کے خلاف انصاف حاصل کر سکے۔
  3. کرپشن کا خاتمہ – کرپشن اسلامی تعلیمات اور قومی ترقی دونوں کی دشمن ہے۔
  4. قانون کی بالادستی – اسلام کہتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ حکمران ہو یا عام شہری۔
  5. آزادی اظہار – عوام کو حق دیا جائے کہ وہ امن کے ساتھ اپنی رائے پیش کر سکیں۔

نتیجہ

اسلام امن، عدل اور انسانیت کا دین ہے۔ اگر پاکستان اسلام کے اصل اصولوں پر قائم ہو جائے تو یہاں نہ غربت رہے گی، نہ ظلم اور نہ ناانصافی۔ مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب حکمران اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریاں پہچانیں۔

یاد رکھیں:

  • ظلم زیادہ دیر نہیں چلتا۔
  • طاقت ہمیشہ عارضی ہوتی ہے۔
  • اصل کامیابی اُس ریاست کو ملتی ہے جو عدل پر کھڑی ہو۔

قرآن میں فرمایا گیا ہے:

“بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔” (الرعد: 11)

یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے شہر اور اپنے ملک کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔


✍ تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: کلک کریں اور جوائن کریں

اسلام ایک ایسا دین ہے جو امن، عدل اور انسانیت کی ضمانت دیتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی بنیاد قرآنِ پاک ہے، جو ہر مسلمان کے ایمان اور عمل کا سرچشمہ ہے۔ اسی حوالے سے آپ یہ مضمون بھی پڑھ سکتے ہیں:
👉 قرآنِ پاک کی حرمت — ایمان والوں کے لیے سب سے بڑی امانت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *