حضرت علی المرتضیٰؓ — شجاعت، عدل اور ایمان کی علامت

0

حضرت علی المرتضیٰؓ — شجاعت، عدل اور ایمان کی علامت


حصہ اول: تعارف اور ابتدائی زندگی

حضرت علی بن ابی طالبؓ، جنہیں تاریخ اسلام میں “اسد اللہ” (اللہ کا شیر)، “حیدر کرار” اور “باب العلم” کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے، اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد اور نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ آپ کا شمار عشرہ مبشرہ (وہ دس صحابہ جنہیں دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دی گئی) میں بھی ہوتا ہے۔

ولادت

حضرت علیؓ کی ولادت 13 رجب، عام الفیل کے تقریباً 30 برس بعد خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔ یہ ایک منفرد اعزاز ہے جو کسی اور شخصیت کو نصیب نہیں ہوا۔ ان کے والد ابو طالب نبی کریم ﷺ کے چچا اور قریش کے معزز سردار تھے جبکہ والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا، جو خود بھی بڑی نیک اور دیندار خاتون تھیں۔

بچپن اور پرورش

حضرت علیؓ کم عمری ہی سے نبی کریم ﷺ کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ قریش کے حالات کی تنگی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کی پرورش اپنی کفالت میں لے لی۔ یہی وہ وقت تھا جب حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق، کردار اور نورانی صحبت کو قریب سے پایا، جس نے ان کے دل کو ایمان کے لیے منور کر دیا۔


حصہ دوم: اسلام کی طرف رجوع اور سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شمار

حضرت علیؓ کی عمر جب تقریباً دس برس تھی، اس وقت نبی کریم ﷺ کو نبوت عطا ہوئی۔ جب آپ ﷺ نے خفیہ طور پر اسلام کی دعوت دی، تو حضرت علیؓ پہلے ہی لمحے ایمان لے آئے۔

یہ ان کی سعادت مندی تھی کہ وہ بچوں میں سب سے پہلے اور مجموعی طور پر تیسرے فرد تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت کی معصوم عمر میں بھی انہوں نے اپنے دل کی گہرائی سے نبی ﷺ کی رسالت کو مانا اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔


حصہ سوم: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تعلق اور قربت

حضرت علیؓ نبی کریم ﷺ کے نہ صرف چچا زاد بھائی تھے بلکہ آپ کے داماد بھی تھے۔ آپؓ کی شادی سیدہ فاطمہ الزہراؓ (رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر) سے ہوئی۔ اس رشتہ نے آپ کو اہل بیت نبویؐ کا لازمی حصہ بنا دیا۔

حضرت علیؓ نے نبی کریم ﷺ کے ہر سفر، ہر جنگ اور ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ ہجرت کی رات جب نبی ﷺ مکہ سے مدینہ جانے لگے تو کفار قریش نے گھر کو گھیر رکھا تھا۔ اسی وقت حضرت علیؓ نبی ﷺ کے بستر پر لیٹ گئے تاکہ دشمنوں کو یہ گمان ہو کہ حضور ﷺ ابھی اندر موجود ہیں۔ یہ قربانی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علیؓ کی جان بھی حضور ﷺ پر فدا تھی۔


حصہ چہارم: میدان بدر و احد میں شجاعت

جنگ بدر

غزوہ بدر اسلام کی پہلی بڑی جنگ تھی۔ اس معرکے میں حضرت علیؓ نے کفار کے کئی بڑے سرداروں کو ارضِ بدر پر گرا کر اسلام کی تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں لکھوا دیا۔

جنگ اُحد

اُحد کے میدان میں جب کئی صحابہ شہید ہوئے اور دشمن نے نبی ﷺ کو گھیر لیا، اس وقت حضرت علیؓ ڈٹ کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ آپ نے اپنی تلوار سے اسلام کا دفاع کیا اور دشمنوں کو پسپا کر دیا۔

جنگ خندق

اس جنگ میں حضرت علیؓ نے کفار کے نامور پہلوان عمرو بن عبدود کو مقابلے میں مار گرایا۔ یہ وہ لمحہ تھا جسے نبی ﷺ نے فرمایا:
“علی کی ایک ضرب، قیامت تک کے تمام نیک اعمال سے افضل ہے۔”


حصہ پنجم: خیبر کی فتح

خیبر کا قلعہ اُس زمانے کا سب سے مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان کئی دنوں تک کوشش کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“کل میں علم ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔”

اگلے دن پرچم حضرت علیؓ کو دیا گیا۔ آپ نے خیبر کا دروازہ تنہا اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ دیا اور قلعہ فتح کر کے اسلام کو عظیم کامیابی دلائی۔

حصہ ششم: خلفائے راشدین کے دور میں حضرت علیؓ کا کردار

حضرت علیؓ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد ہمیشہ امت کے ساتھ کھڑے رہے۔ اگرچہ خلافت کا تاج سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ملا، لیکن حضرت علیؓ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ہر معاملے میں ان کے مشیر خاص بنے۔

دورِ خلافتِ ابوبکرؓ

حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رہتے ہوئے اسلام کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔ مرتدین اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد میں آپ نے حکمت عملی اور مشاورت سے بھرپور حصہ لیا۔

دورِ خلافتِ عمرؓ

حضرت عمرؓ حضرت علیؓ کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اہم مسائل میں وہ ان سے مشورہ لیتے اور اکثر کہا کرتے:
“اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔”
عدالت، فقہ اور قضا کے معاملات میں حضرت علیؓ کا علمی مقام حضرت عمرؓ کے دور میں بھی نمایاں رہا۔

دورِ خلافتِ عثمانؓ

حضرت عثمانؓ کے دور میں جب بغاوتیں اور فتنہ بڑھا تو حضرت علیؓ نے کئی مرتبہ بغاوت کرنے والوں کو سمجھایا اور حضرت عثمانؓ کے دفاع کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن حالات اس قدر پیچیدہ ہو گئے کہ شہادتِ عثمانؓ واقع ہوئی، جو تاریخ اسلام کا ایک نہایت دردناک باب ہے۔


حصہ ہفتم: خلافتِ علیؓ

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد اہلِ مدینہ نے حضرت علیؓ کو خلافت کے لیے منتخب کیا۔ آپ نے بیعت لینے میں ابتدا میں تردد کیا لیکن جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو آپ نے یہ بارِ گراں قبول کر لیا۔

چیلنجز

آپ کی خلافت کے آغاز ہی میں امت کو داخلی اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف قصاصِ عثمانؓ کا مسئلہ تھا، دوسری طرف مختلف صوبوں کے گورنرز کے اختلافات۔

جنگ جمل

یہ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی پہلی بڑی آزمائش تھی۔ اس جنگ میں حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ میدان میں آئے۔ اصل مقصد قصاصِ عثمانؓ کا مطالبہ تھا، لیکن غلط فہمیوں اور سازشوں کے باعث جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کے بعد حضرت علیؓ نے نہایت حکمت اور شفقت سے معاملات کو سلجھایا اور حضرت عائشہؓ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ واپس بھیجا۔


حصہ ہشتم: جنگِ صفین

پس منظر

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت معاویہؓ (جو شام کے گورنر تھے) نے مطالبہ کیا کہ قاتلانِ عثمانؓ کو فوری طور پر قصاص دیا جائے۔ حضرت علیؓ چاہتے تھے کہ پہلے حکومت مستحکم ہو اور حالات قابو میں آئیں، پھر عدل و انصاف کے مطابق قصاص لیا جائے۔ یہی اختلاف بعد میں جنگِ صفین کی صورت میں سامنے آیا۔

جنگ کی تیاری

دونوں طرف لشکر تیار ہوئے۔ حضرت علیؓ کی فوج عراق سے جبکہ حضرت معاویہؓ کی فوج شام سے صفین کے مقام پر پہنچی۔ دونوں لشکروں میں صحابہ کرام بھی موجود تھے، جس کی وجہ سے معاملہ اور زیادہ نازک ہو گیا۔

معرکہ

جنگ کئی دنوں تک جاری رہی۔ حضرت علیؓ نے نہایت شجاعت اور حکمت سے اپنی فوج کی قیادت کی۔ دشمن کے مقابلے میں ان کی بہادری ایک بار پھر ظاہر ہوئی۔

قرآن کو نیزوں پر بلند کرنا

جب حضرت علیؓ کی فوج غالب آنے لگی تو اہلِ شام نے قرآن کے اوراق نیزوں پر بلند کر دیے اور کہا کہ ہم قرآن کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علیؓ کی فوج کے کئی لوگ رُک گئے اور کہا کہ ہمیں بھی قرآن کے مطابق فیصلہ ماننا چاہیے۔

حضرت علیؓ نے سمجھایا کہ یہ ایک چال ہے، لیکن فوج میں اختلاف بڑھ گیا۔ بالآخر تحکیم (Arbitration) پر اتفاق ہوا۔

نتیجہ

تحکیم کے فیصلے نے مزید اختلاف کو جنم دیا اور ایک گروہ (خوارج) پیدا ہوا جس نے بعد میں حضرت علیؓ کی خلافت کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔


حصہ نہم: علمی مقام

حضرت علیؓ کو “باب العلم” کہا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
“میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔”

فقہ و قضا

آپ کے فیصلے اور اجتہادات اسلامی فقہ کے بنیادی اصول بنے۔ کئی مسائل میں آپ کے فتوے آج بھی اسلامی قانون کی بنیاد ہیں۔

خطبات

حضرت علیؓ کے خطبات نہج البلاغہ میں محفوظ ہیں۔ ان میں توحید، عدل، زہد، دنیا کی حقیقت اور آخرت کی تیاری پر گہری باتیں ملتی ہیں۔


حصہ دہم: تصوف اور روحانیت

حضرت علیؓ کو اکثر صوفیا اپنی سلاسل کا روحانی سرچشمہ مانتے ہیں۔ ان کا زہد، عبادت اور دنیا سے بے رغبتی ایک مثالی نمونہ ہے۔ راتوں کو عبادت میں روتے رہنا، قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں غرق رہنا ان کی زندگی کا حصہ تھا۔


حصہ یازدہم: شہادت

خوارج میں سے ایک بدبخت عبد الرحمن بن ملجم نے حضرت علیؓ کو فجر کی نماز کے وقت کوفہ کی مسجد میں شہید کیا۔ زہر آلود تلوار کے وار سے آپ شدید زخمی ہوئے اور دو دن بعد 21 رمضان المبارک کو وصال فرما گئے۔

آپ کی عمر اس وقت 63 برس تھی۔ آپ کو کوفہ کے قریب نجف میں دفن کیا گیا۔


حصہ دوازدہم: امت کے لیے سبق

حضرت علیؓ کی زندگی سے ہمیں یہ اسباق ملتے ہیں:

  1. ایمان پر ثابت قدمی: بچپن ہی سے ایمان لا کر آخر دم تک وفاداری۔
  2. شجاعت اور قربانی: ہر میدان میں اللہ کے دین کے لیے جان کا نذرانہ۔
  3. عدل و انصاف: خلافت میں بھی ہمیشہ عدل قائم رکھنے کی کوشش۔
  4. علم کی روشنی: قرآن و سنت کی گہری فہم اور امت کے لیے رہنمائی۔
  5. صبر و استقامت: اختلافات اور جنگوں کے باوجود امت کی بھلائی کے لیے صبر کرنا۔

نتیجہ

حضرت علی المرتضیٰؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ کے دین کے لیے وقف کی۔ ان کا مقام ایمان، شجاعت، علم اور عدل کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ ان کی خلافت اور زندگی کا ہر پہلو امت کے لیے مشعل راہ ہے۔


✍️ تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: کلک کریں اور جوائن کریں

“حضرت علیؓ نے جنگ بدر میں اپنی بے مثال شجاعت دکھائی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: جنگ بدر — اسلام کی پہلی عظیم فتح

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *