پاکستان میں آج کی سیلابی صورتحال — ایک المیہ اور کڑی آزمائش

0

پاکستان میں آج کی سیلابی صورتحال — ایک المیہ اور کڑی آزمائش

پاکستان اس وقت ایک شدید انسانی اور فطری بحران سے گزر رہا ہے۔ سیلابی ریلے اور دریاؤں کی طغیانی نے لاکھوں گھروں کو ڈبو دیا ہے۔ بارشوں کا سلسلہ تو کچھ مقامات پر تھم چکا ہے، مگر پانی کے ریلے اب بھی دیہی اور شہری علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ آج کی صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک کا بڑا حصہ، خصوصاً پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ کے کئی اضلاع، اب بھی شدید خطرے کی لپیٹ میں ہیں۔


ہلاکتیں اور متاثرین کی تعداد

سیلاب کی وجہ سے ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف آج تک کی اطلاعات کے مطابق سینکڑوں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ ان میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ زیادہ تر اموات چھتیں گرنے، کرنٹ لگنے، ملبے تلے دبنے اور سیلابی پانی میں بہہ جانے سے ہوئیں۔

بچ جانے والے لاکھوں لوگ اب کھلے آسمان تلے یا عارضی خیمہ بستیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ خوراک کی کمی، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، اور طبی سہولیات کی کمی صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔


زیرِ آب علاقے اور گاؤں

آج کے دن تک پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں گاؤں مکمل یا جزوی طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔ دریائے ستلج، چناب اور راوی کے کنارے بسنے والے دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کھیت کھلیان، مکانات، سکول، مساجد اور سڑکیں سب پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔

کاشتکاروں کے لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ گندم، کپاس، گنا اور سبزیوں کی پیداوار کا نقصان ملکی معیشت پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔


مویشیوں اور روزگار کا نقصان

پاکستان کے دیہی علاقوں میں مویشی کسان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ آج کے دن تک لاکھوں مویشی یا تو بہہ گئے ہیں یا وبائی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ دودھ اور گوشت کی کمی آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گی۔

روزگار کے مواقع بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں، مزدوروں اور کسانوں کی محنت چند دنوں کے پانی میں بہہ گئی۔


انسانی المیہ — بھوک اور بیماری

سیلاب کے بعد سب سے بڑا چیلنج بھوک اور بیماری ہے۔ آج متاثرہ علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگ خالی ہاتھ بیٹھے ہیں۔ امدادی سامان ہر جگہ نہیں پہنچ پا رہا۔ کھانے کے پیکٹ، پینے کا صاف پانی، دوائیاں اور بچوں کے لیے دودھ سب نایاب ہو چکے ہیں۔

پانی کھڑا رہنے سے وبائی امراض بھی پھیل رہے ہیں۔ ہیضہ، ملیریا، ڈائریا اور جلدی بیماریوں نے متاثرہ علاقوں میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔


حکومتی اور عوامی ردعمل

آج حکومت اور فلاحی ادارے اپنی مدد کے تحت ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔ فوج اور ریسکیو ٹیمیں ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہر طرف بدحالی ہی بدحالی نظر آتی ہے۔

عام شہری بھی اپنی استطاعت کے مطابق امداد پہنچا رہے ہیں۔ کہیں کھانے کے ڈبے تقسیم ہو رہے ہیں، کہیں خیمے اور کپڑے۔ مگر یہ سب کچھ ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔


دریاؤں کی صورتحال

آج کے دن سب سے زیادہ خطرناک صورتحال دریائے ستلج، چناب اور راوی میں دیکھی جا رہی ہے۔ ان دریاؤں میں پانی کا بہاؤ انتہائی بلند سطح پر ہے، اور کٹاؤ کی وجہ سے کنارے ٹوٹ رہے ہیں۔ کئی مقامات پر باندھ اور حفاظتی پشتے ٹوٹ چکے ہیں۔

اس کے نتیجے میں پانی تیزی سے نئے دیہات میں داخل ہو رہا ہے۔ کسان اپنی کھیتیاں بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں مگر قدرتی آفت کے سامنے کوئی رکاوٹ کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔


متاثرین کی آواز

آج اگر آپ کسی بھی متاثرہ علاقے میں جائیں تو ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے:
“ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔”

لوگ اپنے پیاروں کے لاشے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، مائیں بچوں کو بھوکا دیکھ کر آنسو بہاتی ہیں، اور بزرگ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس آفت کو ٹال دے۔


مستقبل کا خطرہ

ماہرین کے مطابق یہ پانی جلد خشک نہیں ہوگا۔ زیرِ آب علاقے مزید ہفتوں تک متاثر رہ سکتے ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو بھوک، بیماری اور بے روزگاری کی وبا ملک بھر میں پھیل سکتی ہے۔

پاکستان پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے، اور اس قدرتی آفت نے اس کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔


نتیجہ

آج کی سیلابی صورتحال صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک قومی سانحہ ہے۔ یہ لمحہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا؟ دریاؤں کے کناروں پر مضبوط پشتے کیوں نہیں بنائے؟ اور ہنگامی حالات میں متاثرین تک فوری امداد پہنچانے کا مؤثر نظام کیوں نہیں بنایا؟

یہ آزمائش ایک موقع بھی ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو کر اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کریں، تو کل یہ ملک ایک بار پھر کھڑا ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے غفلت برتی تو یہ زخم آنے والی نسلوں تک رہیں گے۔


✍️ تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: یہاں کلک کریں اور جوائن کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *