پاکستان، امریکہ اور دہشتگردی کی جنگ — ماضی کی غلطیاں اور آج کے خدشات

0

پاکستان اور امریکہ نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف مل کر کام کریں گے۔ اس کا ہدف تحریک طالبان پاکستان (TTP)، بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)، اور داعش خراسان جیسی تنظیمیں ہیں۔ امریکی قیادت پاکستان کو ایک اہم اتحادی قرار دیتی ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا یہ اشتراک واقعی پاکستان کے مفاد میں ہے یا ہم ایک بار پھر کسی اور کی جنگ میں کودنے جا رہے ہیں؟


ماضی کا کڑوا سبق — ڈالرز کے بدلے اپنی زمین جلانا

پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے موقع آئے جب ہم نے عالمی طاقتوں کی جنگ میں صرف ڈالرز کے لیے شمولیت اختیار کی، جس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

  • 9/11 کے بعد پرویز مشرف کا دور: امریکہ کے کہنے پر پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا۔ اربوں ڈالر ملے، مگر ہزاروں فوجی و عام شہری شہید ہوئے، قبائلی علاقے تباہ ہوئے، اور شدت پسندی مزید پھیلی۔
  • لال مسجد آپریشن اور ڈرون حملے: سینکڑوں بے گناہ مارے گئے، جس سے انتقام اور شدت پسندی کو ہوا ملی۔

نواب اکبر بگٹی کا قتل اور بلوچستان کی آگ

2006 میں نواب اکبر بگٹی کو فوجی آپریشن میں قتل کیا گیا۔ وہ بلوچستان کے ایک بااثر قبائلی رہنما اور سابق گورنر تھے۔ ان کے قتل کے بعد بلوچستان میں ریاست مخالف جذبات میں شدت آئی، اور اسی پس منظر میں بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) نے اپنی مسلح سرگرمیوں کو تیز کیا۔

  • بگٹی کے قتل کے بعد ایک دہائی تک بلوچستان بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کی لپیٹ میں رہا۔
  • ہزاروں لوگ مارے گئے، اور ریاست کا زمینی کنٹرول کمزور ہوا۔
  • آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بلوچستان کا زمینی راستہ استعمال کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ کئی علاقے بدستور غیر محفوظ ہیں۔

نیٹو سپلائی لائن — ڈالرز کے بدلے راستے

افغان جنگ کے دوران پاکستان نے نیٹو افواج کے لیے اپنی زمین اور راستے استعمال کرنے کی اجازت دی۔

  • بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے زمینی راستوں سے ہزاروں ٹرک روزانہ گزرتے، جو نیٹو افواج کو رسد پہنچاتے تھے۔
  • اس سہولت کے بدلے پاکستان کو اربوں ڈالر ملے، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشتگرد گروہ ان سپلائی لائنز پر حملے کرتے اور ملک مزید بدامنی میں ڈوبتا گیا۔

افغانستان — دوست سے دشمن تک

افغانستان ماضی میں پاکستان کا قریبی دوست رہا، مگر 2001 کے بعد پاکستان نے امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دے کر افغانستان پر فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا۔

  • پاکستان نے امریکی ڈرون حملوں اور انٹیلی جنس آپریشنز کے لیے اپنی زمین فراہم کی۔
  • اس پالیسی نے افغان عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کی، اور آج افغانستان میں ایک بڑا طبقہ پاکستان کو دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔

عمران خان کا مؤقف — کسی کی جنگ نہیں

عمران خان مسلسل کہتے رہے ہیں:

“ہم امن میں پارٹنر ہو سکتے ہیں، مگر کسی کی جنگ میں نہیں۔”

خان کے مطابق ماضی میں ڈالرز کے لیے اپنی عوام اور دوست ممالک کو نقصان پہنچانے کی پالیسی نے پاکستان کو معاشی، سماجی اور جغرافیائی نقصان پہنچایا۔


آج کا سوال — کیا ہم تاریخ دہرا رہے ہیں؟

اگرچہ اس بار ہدف دہشتگرد تنظیمیں ہیں، مگر خدشہ یہ ہے کہ کہیں ہم پھر کسی اور کی جنگ میں نہ کود جائیں۔ دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے، مگر فیصلے پاکستان کے مفاد میں اور ماضی کی غلطیوں سے بچ کر کرنے ہوں گے۔


نتیجہ:
پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف پالیسی اپنے زمینی حقائق اور قومی مفاد کے مطابق بنانی ہوگی۔ ڈالرز کے لیے قومی سلامتی اور عوام کی جان قربان کرنا نہ ماضی میں سود مند تھا، نہ اب ہوگا۔ بلوچستان، افغانستان، اور قبائلی علاقوں کی موجودہ صورتحال اس کی سب سے بڑی گواہی ہے۔

تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ ہم نے کئی مواقع پر اپنی خودمختاری کو داؤ پر لگا کر ڈالرز کے بدلے دوسروں کی جنگ لڑی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *