📰 “26ویں آئینی ترمیم: عدلیہ کی آزادی پر شب خون یا اصلاحات کا نام؟

تحریر: رانا علی فیصل
(Haqeeqat Pakistan | ranaaliofficial.com)
پاکستان کے آئین میں کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم کو ملکی عدلیہ کی آزادی پر ایک بڑا وار قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ وہ ترمیم ہے جس نے نہ صرف قانونی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ بین الاقوامی ادارے جیسے ICJ (International Commission of Jurists) اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے بھی تشویش کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار اب جوڈیشل کمیشن کے بجائے ایک پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے، جو بظاہر جمہوریت کے حق میں قدم لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ عدلیہ کی خودمختاری پر سنگین سوالات کھڑے کر رہا ہے۔
🧱 ترمیم کی بنیادی تبدیلیاں
- اب چیف جسٹس کی تعیناتی براہِ راست سینئرٹی پر نہیں، بلکہ پارلیمانی منظوری سے ہوگی۔
- جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (JCP) میں ججوں کے بجائے ارکانِ اسمبلی کی شمولیت کو ترجیح دی گئی۔
- سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت کئی ججز نے ان تبدیلیوں پر اپنے تحفظات ریکارڈ کرائے۔
اس ترمیم کا اثر صرف کاغذ پر نہیں رہا بلکہ عملی عدالتی فیصلوں اور عدالتی تقرریوں میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔
⚖️ عدلیہ کی خودمختاری کا زوال؟
قانونی ماہرین اس ترمیم کو عدلیہ پر پارلیمانی قبضے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اگر ایک جج کو تقرری یا پروموشن کے لیے پارلیمنٹ کی خوشنودی درکار ہو تو اس کی غیر جانبداری کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ یہ سوال اہم ہے کیونکہ عدلیہ کا اولین فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ ریاستی اداروں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔
مشہور وکیل عابد حسن منٹو نے کہا:
“اگر عدلیہ کی آزادی سلب ہو جائے تو عوام کو انصاف کی توقع بھی ختم ہو جاتی ہے۔”
📢 عمران خان اور پی ٹی آئی کا مؤقف
تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان اور ان کی جماعت نے 26ویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ عمران خان نے جیل میں ہونے کے باوجود اپنے وکلاء کے ذریعے جو پیغامات باہر بھجوائے، ان میں عدلیہ کی آزادی کو “ریاست کے ستونوں کی روح” قرار دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے ترجمان کا کہنا ہے:
“یہ ترمیم دراصل ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ملی بھگت سے لائی گئی تاکہ آزاد عدلیہ کو غلام بنایا جا سکے۔ وہ عدلیہ جو پانامہ، فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ کیسز میں حق پر فیصلے دیتی تھی، اُسے اب تابع دار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
عمران خان نے پہلے بھی بارہا عدالتی آزادی کی بات کی اور خود 2014 اور 2022 کے دھرنوں میں عدلیہ کی مداخلت کو قبول کرتے رہے، لیکن اب جب وہ خود ناانصافیوں کا شکار ہیں، وہ عدلیہ کو ایک آخری امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
👮 پولیس کا کردار اور عدالتی حکم عدولی
26ویں ترمیم کے بعد ملک میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ پولیس افسران اور انتظامی ادارے ججوں کے احکامات کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ متعدد مواقع پر عدالت کے واضح احکامات کے باوجود پولیس نے سیاسی کارکنان کو رہا نہیں کیا یا عدالتی ہدایات کو تاخیر سے نافذ کیا۔
اس پر معروف قانون دان اکرام چوہدری نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
“جب عدلیہ کے تقرری کے فیصلے سیاسی ہوں، تو انتظامیہ اس کے احکامات کو کیوں سنجیدہ لے؟”
🌐 عالمی ردعمل
بین الاقوامی کمیشن برائے ماہرینِ قانون (ICJ) نے اس ترمیم کو “عدلیہ کی آزادی پر شب خون” قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی پاکستان کے اس اقدام کو خطرناک پیش رفت بتایا اور کہا کہ:
“عدلیہ کو سیاسی چکی میں پیسنے سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔”
📊 ترمیم کے ممکنہ اثرات
پہلو | اثر |
---|---|
عدالتی فیصلے | متنازع، سیاسی دباؤ میں |
ججوں کی تقرری | قابلیت کے بجائے پسند و ناپسند پر |
عوامی اعتماد | شدید کمی |
پولیس کا رویہ | عدالتی احکامات کی خلاف ورزی |
ریاستی توازن | پارلیمان کا غلبہ، عدلیہ کمزور |
🛑 آئندہ کیا ہوگا؟
اگر 26ویں ترمیم کو واپس نہ لیا گیا تو:
- سپریم کورٹ میں قابل ججز کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔
- فیصلے سیاسی دباؤ کے تابع ہو سکتے ہیں۔
- عوام کے بنیادی حقوق کے مقدمات غیر اہم سمجھے جا سکتے ہیں۔
- سیاسی انتقام کے مقدمات میں انصاف کی توقع ختم ہو سکتی ہے۔
✊ قوم کی ذمہ داری
ایسے وقت میں جب ملک میں پہلے ہی سیاسی انتشار ہے، انصاف کی امید کو ختم کرنا خود پاکستان کے آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ عوام، وکلاء، اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے آواز بلند کریں، کیونکہ اگر جج آزاد نہیں ہوں گے تو کل عام شہری بھی محفوظ نہیں ہوگا۔
📌 نتیجہ: سچ چھپایا نہیں جا سکتا
26ویں ترمیم کو جس انداز سے جلدی میں منظور کیا گیا، وہ بذاتِ خود اس کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ترمیم عدلیہ کی نہیں، بلکہ سیاستدانوں کی طاقت کی بھوک کا نتیجہ ہے۔ اگر ججز آزاد نہیں ہوں گے تو ریاست کے ستون لرز جائیں گے۔
عمران خان کی قید ہو یا تحریکِ انصاف کی پابندیاں—ان کے باوجود عدلیہ کو آزاد رکھنا ہر محبِ وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔
بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جورسٹس نے 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر سنگین حملہ قرار دیا ہے۔