12 ربیع الاول کی حقیقت: نبی اکرم ﷺ کی ولادت، وفات

0

تعارف

اسلام ایک ایسا دین ہے جو صرف عبادات اور رسومات کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس دین کی سب سے بڑی نعمت اور بنیاد ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ ﷺ کی آمد سے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو روشنی نصیب ہوئی۔ ظلم، جاہلیت، بت پرستی اور معاشرتی بگاڑ کے دور میں آپ ﷺ نے دنیا کو امن، عدل اور توحید کا پیغام دیا۔
جب ہم 12 ربیع الاول کی بات کرتے ہیں تو یہ دن امتِ مسلمہ کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ صدیوں سے مسلمان اس دن کو رسول اکرم ﷺ کی ولادت اور ان کے فیضان کو یاد کرنے کے طور پر مناتے آئے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دن نبی کریم ﷺ کا وصال بھی ہوا۔ لہٰذا 12 ربیع الاول کا دن خوشی اور غم دونوں جذبات کا حسین امتزاج ہے۔


نبی کریم ﷺ کی ولادت کے حالات

حضرت محمد ﷺ کی ولادت ایسے وقت ہوئی جب عرب دنیا ظلم، شرک، جہالت اور بے راہ روی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس زمانے کو “دورِ جاہلیت” کہا جاتا ہے۔ لوگ قبائلی جنگوں میں الجھے رہتے، عورتوں کو وراثت میں حصہ نہ دیا جاتا اور بیٹی کو زندہ دفن کرنا باعثِ فخر سمجھا جاتا۔ شراب نوشی، جوا، بت پرستی اور غلامی عام تھی۔

ایسے تاریک دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو دنیا میں بھیج کر انسانیت پر احسانِ عظیم فرمایا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“بیشک اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا جب ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں۔” (آل عمران: 164)

آپ ﷺ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی، اور اس وقت پورا عرب اپنی تاریخ کے ایک بڑے انقلاب کے دہانے پر تھا۔


تاریخِ ولادت کے مختلف اقوال

اہلِ علم کے درمیان نبی کریم ﷺ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں:

  1. 12 ربیع الاول — سب سے مشہور قول، جسے زیادہ تر علماء اور عوام مانتے ہیں۔
  2. بعض مؤرخین کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت 9 ربیع الاول کو ہوئی۔
  3. کچھ کے نزدیک 8 ربیع الاول کی تاریخ درست ہے۔
  4. جبکہ بعض نے 17 یا 22 ربیع الاول کا بھی ذکر کیا ہے۔

لیکن زیادہ تر روایات اور امت کا عمومی عمل 12 ربیع الاول پر جمع ہے، اسی لیے اسے “یومِ ولادتِ رسول ﷺ” کے طور پر جانا جاتا ہے۔


12 ربیع الاول: ولادت اور وصال کا دن

یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا وصال بھی 12 ربیع الاول کو ہوا۔ آپ ﷺ کی وفات 63 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

یعنی یہ دن امت کے لیے ایک طرف خوشی کا ہے کہ رسول اکرم ﷺ دنیا میں تشریف لائے، اور دوسری طرف غم کا بھی ہے کہ اسی دن وہ دنیا سے پردہ فرما گئے۔

صحیح بات یہ ہے کہ ہمیں خوشی یا غم کے بجائے اس دن کو اتباعِ رسول ﷺ کا دن سمجھنا چاہیے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو حضور ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔


قرآن و سنت میں سیرتِ نبی ﷺ کا مقام

قرآن کریم میں بار بار نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے:

  • “بیشک تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو زیادہ یاد کرتا ہے۔” (الاحزاب: 21)
  • “جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔” (النساء: 80)

یعنی حقیقی محبتِ رسول ﷺ یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کے احکامات پر عمل کریں، نہ کہ صرف زبانی دعوے کریں۔


میلاد کے انعقاد کی تاریخ اور حقیقت

نبی کریم ﷺ کے وصال کے کئی صدیوں بعد میلاد کے باضابطہ انعقاد کی روایت سامنے آئی۔ مصر کے فاطمی حکمرانوں نے میلاد کے جلسے منعقد کرنے کا آغاز کیا۔ بعد میں یہ روایت مختلف علاقوں میں پھیلتی گئی۔

اہلِ علم میں میلاد کے انعقاد پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ اسے بدعت کہتے ہیں جبکہ کچھ اسے محبتِ رسول ﷺ کے اظہار کا جائز طریقہ سمجھتے ہیں، بشرطیکہ اس میں کوئی خلافِ شریعت کام نہ کیا جائے۔

اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ میلاد کے نام پر فضول خرچی، موسیقی یا خلافِ سنت رسومات کے بجائے سیرتِ رسول ﷺ پر گفتگو کی جائے، قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے اور حضور ﷺ کے مشن کو یاد دلایا جائے۔


حقیقی جشنِ میلاد: اتباعِ رسول ﷺ

حقیقی جشنِ میلاد یہ ہے کہ:

  • ہم اپنی زندگیوں کو حضور ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر گزاریں۔
  • نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں، والدین کے فرمانبردار بنیں۔
  • ظلم، جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی سے بچیں۔
  • معاشرے میں عدل، مساوات اور محبت قائم کریں۔

اگر ہم صرف نعرے لگائیں لیکن اپنے اعمال میں نبی ﷺ کی تعلیمات کو نہ اپنائیں تو یہ محبت کا ادھورا اظہار ہوگا۔


موجودہ دور میں 12 ربیع الاول کی عملی اہمیت

آج امت مسلمہ جن مسائل کا شکار ہے، ان کا حل صرف سیرتِ رسول ﷺ میں ہے۔

  • سیاست میں دیانت، امانت اور عدل کی ضرورت ہے۔
  • معیشت میں سود سے بچ کر حلال کمائی کی طرف آنا ہوگا۔
  • معاشرت میں خواتین کو وہ عزت دینی ہوگی جو اسلام نے عطا کی۔
  • تعلیم میں علمِ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

12 ربیع الاول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلیں گے تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوں گے۔


مغرب اور دیگر مذاہب کے تناظر میں عظمتِ رسول ﷺ

دنیا کی تاریخ میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی زندگی اتنی مفصل اور محفوظ ہو جتنی نبی کریم ﷺ کی ہے۔ مغربی مورخین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دنیا کو حقیقی معنوں میں بدل دیا۔

فرانس کے مشہور فلسفی لامارٹن لکھتے ہیں:

“اگر مقصد عظیم، وسائل محدود اور نتیجہ حیران کن ہو تو تاریخ میں محمد ﷺ جیسا کامیاب انسان کوئی نہیں۔”

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی آپ ﷺ کی عظمت کے قائل ہیں۔


مسلمانوں کے لیے نصیحت

  • 12 ربیع الاول پر ہمیں اپنی زندگیوں کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
  • صرف جلسوں اور چراغاں پر اکتفا کرنے کے بجائے حضور ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا چاہیے۔
  • محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ ہم آپ ﷺ کے مشن کو آگے بڑھائیں۔
  • دین اور دنیا دونوں میں توازن قائم کریں۔

خلاصہ

12 ربیع الاول ایک تاریخی دن ہے۔ یہ دن ہمیں رسول اکرم ﷺ کی ولادت اور وفات دونوں کی یاد دلاتا ہے۔ حقیقی محبت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق گزاریں۔ اگر ہم آپ ﷺ کی سنت کو اپنائیں گے تو دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔

تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ وزٹ کریں: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل جوائن کریں: یہاں کلک کریں اور جوائن کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *