سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ – سچائی اور زہد کا پیکر

0

ابتدائی تعارف

حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اصل نام جُندب بن جُنادہ تھا۔ آپ قبیلہ غِفار سے تعلق رکھتے تھے جو مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام پر آباد تھا۔ آپ زمانہ جاہلیت میں بھی جھوٹ، شرک اور بت پرستی سے سخت نفرت کرتے تھے اور ہمیشہ حق اور سچائی کے متلاشی رہے۔ اسی وجہ سے تاریخ میں آپ کو ’’اسلام کے سچے ترین داعی‘‘ کہا جاتا ہے۔


اسلام قبول کرنے کا عظیم واقعہ

جب مکہ مکرمہ میں نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو اس کی خبر ابو ذر رضی اللہ عنہ تک پہنچی۔ آپ نے اپنے بھائی انیس کو مکہ بھیجا تاکہ کچھ تحقیق کرے۔ لیکن آپ خود مطمئن نہ ہوئے اور آخرکار مکہ کا سفر کیا۔

  • مکہ پہنچ کر سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔
  • حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جا کر اسلام کی دعوت دی۔
  • ابو ذر رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی تاخیر کے اسلام قبول کرلیا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد وہ مسجد حرام میں گئے اور سب کے سامنے اعلان کیا:

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں‘‘

یہ اعلان سن کر قریش نے سخت مارا پیٹا، لیکن آپ اپنے ایمان پر ڈٹے رہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بچایا اور کہا: ’’یہ غفار قبیلہ کا آدمی ہے، تمہارا تجارتی قافلہ انہی کے راستے سے گزرتا ہے‘‘۔ اس پر قریش نے چھوڑ دیا۔


تبلیغ کا عزم

اسلام قبول کرنے کے بعد آپ اپنے قبیلے میں واپس گئے اور وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ آپ کی دعوت پر نہ صرف آپ کے بھائی اور والدہ مسلمان ہوئے بلکہ قبیلہ غفار کے بڑے حصے نے اسلام قبول کرلیا۔ بعد میں قبیلہ اسلم بھی آپ کی کوششوں سے اسلام لے آیا۔ یوں ایک تنہا شخص نے پورے قبیلے کو اللہ کی طرف ہدایت دی۔


رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تعلق

رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی سچائی اور زہد بہت محبوب تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

“زمین نے نہ کوئی زیادہ سچا اٹھایا اور نہ آسمان نے اپنے سائے میں زیادہ سچا لیا جتنا کہ ابو ذر ہیں”
— (ترمذی شریف)

ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ابو ذر تنہا چلیں گے، تنہا مریں گے اور قیامت کے دن تنہا اٹھائے جائیں گے‘‘
— (مسند احمد)


نمایاں واقعات

1. غزوہ تبوک کا واقعہ

غزوہ تبوک کے سفر میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کا اونٹ کمزور ہو گیا اور قافلہ سے پیچھے رہ گئے۔ آپ نے سامان اٹھایا اور تنہا پیدل چلتے رہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے دور سے دیکھا تو فرمایا:

’’اللہ ابو ذر پر رحم فرمائے، وہ تنہا چلتا ہے، تنہا مرے گا اور تنہا اٹھایا جائے گا‘‘

یہ الفاظ بعد میں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئے۔


2. حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ واقعہ

ایک مرتبہ جذبات میں آ کر آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ کی طرف نسبت دے کر کہا: ’’اے سیاہ فام کی اولاد‘‘۔
نبی اکرم ﷺ نے فوراً تنبیہ فرمائی:

’’ابو ذر! تم میں ابھی جاہلیت کا اثر باقی ہے‘‘

یہ سن کر ابو ذر رضی اللہ عنہ بہت روئے اور بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں میں گر گئے، کہا: ’’جب تک میرا ماتھا تمہارے پاؤں کے نیچے نہ آئے میں سر نہیں اٹھاؤں گا‘‘۔ بلال رضی اللہ عنہ نے معاف کر دیا۔ اس واقعے نے آپ کو عاجزی اور مساوات کی نئی راہ دکھائی۔


3. زہد اور قناعت

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ دنیاوی دولت سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ ایک بار آپ نے فرمایا:

’’میں چاہتا ہوں کہ میرا گھر خالی ہو اور میرے پاس کچھ نہ ہو سوائے دو چادروں کے؛ ایک پہننے کے لیے اور ایک اوڑھنے کے لیے‘‘۔

اسی لیے آپ کو ’’اسلام کا درویش صحابی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔


خلافت کے زمانے میں کردار

خلافت عثمانی کے دور میں جب مال و دولت کی کثرت اور دنیاوی رنگ نظر آیا تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کھلے لفظوں میں لوگوں کو نصیحت کی کہ مال جمع کرنا بربادی ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’جو لوگ سونے چاندی کے ڈھیر لگاتے ہیں، وہ دراصل اپنے لیے جہنم کا سامان تیار کر رہے ہیں‘‘۔

ان کی یہ بیباکی بعض لوگوں کو پسند نہ آئی، چنانچہ آپ مدینہ چھوڑ کر رَبدہ نامی مقام پر چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں زہد و عبادت میں گزاری۔


وفات

آپ کی وفات 32 ہجری میں رَبدہ کے مقام پر ہوئی۔ عین اسی وقت رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ آپ تنہا دنیا سے رخصت ہوں گے۔

جب آپ کا جنازہ تیار ہو رہا تھا تو اللہ کے حکم سے چند مسافر وہاں سے گزرے جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر کہا:

’’رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا تھا، ابو ذر تنہا مریں گے‘‘۔

انہوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور دفن کیا۔


چند اہم احادیث (ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت)

  1. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرتے رہو جہاں بھی ہو، برائی کے بعد نیکی کرو، وہ اسے مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ‘‘
    — (ترمذی)
  2. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ چھوٹا سا نیکی کا عمل ہی کیوں نہ ہو‘‘
    — (مسلم)
  3. ابو ذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے نصیحت مانگی تو آپ نے فرمایا: اللہ کا خوف دل میں رکھو، قرآن کی تلاوت کو لازم پکڑو، اور موت کو زیادہ یاد کیا کرو‘‘۔

خلاصہ

سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی سچائی، فقر، زہد، بے باکی اور مساوات کی روشن مثال ہے۔ آپ نے پوری امت کو یہ سبق دیا کہ اصل دولت دنیا کے خزانے نہیں بلکہ اللہ کی رضا ہے۔ آپ کا کردار ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ رہے گا۔

تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: کلک کریں اور جوائن کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *