سہیل وڑائچ — صحافت پر لگنے والا بدنما داغ

0

تحریر: رانا علی فیصل
🌐 مزید پڑھیں: رانا علی آفیشل ویب سائٹ
📢 واٹس ایپ چینل: کلک کریں اور جوائن کریں

پاکستان میں صحافت ہمیشہ سے ایک مقدس فریضہ رہی ہے۔ قلم کو امانت سمجھا گیا، سچ کو طاقت، اور حق گوئی کو عزت۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ ایسے چہرے بھی اس شعبے میں آ نکلے جنہوں نے طاقتوروں کی چاپلوسی اور مفادات کے لیے صحافت کو داغدار کیا۔ انہی میں ایک نمایاں نام ہے سہیل وڑائچ۔

یہ شخص خود کو “معروف صحافی” کہلواتا ہے، لیکن اصل میں یہ طاقتوروں کی گود میں بیٹھا ایک ایسا کردار ہے جو عوام کے دکھ درد کے بجائے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے بیانیے کو آگے بڑھاتا ہے۔ عوام خون پسینہ بہا کر حق کی امید لگاتے ہیں، اور یہ حضرات کاغذ پر ایسے الفاظ بُنتے ہیں جو صرف حکمراں طبقے کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

قلم کی حرمت بیچ دی گئی

سہیل وڑائچ جیسے لوگوں نے ثابت کیا کہ جب صحافت ضمیر بیچ دے تو وہ صرف پروپیگنڈہ رہ جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں طاقتور کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے، چاہے عوام پر گولیاں برسیں یا ملک کا سودا ہو۔ ایسے کردار تاریخ میں ہمیشہ کالی بھیڑیں کہلائے گئے ہیں۔

عوامی رائے اور حقیقت

آج عوام کا سہیل وڑائچ جیسے صحافیوں سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ انہیں کھل کر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ اور “قلم فروش” کہتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ:

  • کیا یہی صحافت ہے؟
  • کیا یہ عوام کی آواز ہے یا حکمراں طبقے کا لاؤڈ اسپیکر؟

شرم کا مقام

سہیل وڑائچ کو یہ سوچنا چاہیے کہ تاریخ صرف ان صحافیوں کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے ظلم کے سامنے کلمۂ حق کہا۔ لیکن یہ صاحب تو ہمیشہ ظالم کے ساتھ اور مظلوم کے خلاف کھڑے رہے۔ یہی وہ طرزِ عمل ہے جس نے صحافت کو بدنام کیا اور صحافیوں کو عوام کی نظروں میں گرایا۔


🔥 نتیجہ یہ ہے کہ سہیل وڑائچ جیسے “نام نہاد دانشور” اگر کل قلم رکھ بھی دیں تو عوام کے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ شاید قوم کا یہی فائدہ ہوگا کہ ایک کالی بھیڑ کم ہو جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *