حضرت یوسف علیہ السلام کی مصر میں حکمرانی اور عظیم امتحانات — ایک ایمان افروز داستان

0

“اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یَا اَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ”
(یوسف: 4)
ترجمہ: “جب یوسف نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو، اور سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔”

میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
یہ کوئی عام خواب نہ تھا… یہ اس بچے کے مستقبل کا اعلان تھا جس کے قدموں تلے ایک دن مصر کی سلطنت جھکے گی، مگر یہ سفر آسان نہ تھا۔ اس خواب کی تعبیر تک پہنچنے کے لیے یوسف علیہ السلام کو ایسے امتحانات سے گزرنا پڑا جن میں کمزور دل ٹوٹ جاتے ہیں، مگر صبر کرنے والے اور اللہ پر بھروسہ کرنے والے کبھی ہار نہیں مانتے۔


حسد کی آگ اور کنویں کی تاریکی

یاد رکھیے! سب سے پہلا وار اکثر اپنوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بھائی، جن کا فرض تھا کہ حفاظت کرتے، وہی دشمن بن گئے۔ انہوں نے معصوم یوسف کو کنویں کی تاریکی میں پھینک دیا۔ پانی کی نمی اور تنہائی کی سرد ہوا میں بھی یوسف علیہ السلام کا دل اللہ کی یاد سے بھرا رہا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا نے منہ موڑ لیا، لیکن اللہ نے اپنی رحمت کا دامن پھیلا دیا۔


غلامی سے قید تک

کنویں سے نکل کر ایک قافلے والے نے خریدا، اور وہ مصر میں غلام بنا دیے گئے۔ لیکن سن لو! ایمان والا چاہے غلامی میں ہو یا بادشاہی میں، اس کا کردار نہیں بدلتا۔ یوسف علیہ السلام نے امانت، صداقت اور پاکدامنی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ ہر شخص متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

پھر کردار کی سب سے بڑی آزمائش آئی… ایک عورت نے گناہ کی دعوت دی۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: “اے اللہ! قید مجھے زیادہ پسند ہے اس برائی سے جس کی طرف یہ بلا رہی ہیں۔” اور یوں بےگناہی کے باوجود سالہا سال قید کاٹنی پڑی۔ مگر یہ قید بھی ایک درس گاہ بن گئی جہاں آپ نے اللہ کی توحید کی دعوت دی اور لوگوں کے دل جیت لیے۔


قید سے اقتدار تک

پھر وہ دن آیا جب بادشاہ نے خواب دیکھا اور کوئی اس کی تعبیر نہ بتا سکا۔ یوسف علیہ السلام نے نہ صرف تعبیر دی بلکہ پورا معاشی منصوبہ بھی پیش کیا—سات سال خوشحالی، سات سال قحط، اور ان کے لیے عملی تیاری۔

بادشاہ نے کہا: “یوسف! آؤ، میں تمہیں اپنے قریب رکھنا چاہتا ہوں۔”
اور یوسف علیہ السلام نے کہا: “مجھے زمین کے خزانے کا نگران بنا دیجیے، میں محافظ بھی ہوں اور علم والا بھی۔”
یوں غلامی اور قید کا مسافر مصر کے تاج پر سرفراز ہوا۔


حکمرانی کا سنہرا دور

یوسف علیہ السلام نے گودام بنوائے، غلہ محفوظ کیا، اور قحط کے دنوں میں ناپ تول کے ساتھ راشن تقسیم کیا۔ کسی کو بھوکا نہ رہنے دیا، کسی کو ناانصافی کا شکار نہ ہونے دیا۔ ان کی حکمرانی میں مصر امن، انصاف اور خوشحالی کا گہوارہ بن گیا۔


بھائیوں کی واپسی اور معافی کا امتحان

پھر وہ دن بھی آیا جب وہی بھائی قحط کے زمانے میں غلہ لینے کے لیے آئے۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا، لیکن دل میں انتقام کی بجائے رحمت کا چراغ جل اٹھا۔ جب سب حقیقت کھل گئی، تو آپ نے کہا:
“آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے۔”

یہ ہے اصل حکمران کی شان—طاقت کے باوجود معاف کر دینا، انتقام کے بجائے اصلاح کا راستہ اختیار کرنا۔


آج کا پیغام

اے سننے والو! حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی صرف ماضی کی یاد نہیں، یہ آج کے حکمرانوں، لیڈروں، اور ہر ذمہ دار شخص کے لیے ایک آئینہ ہے:

  • امانت اور مہارت کے بغیر اقتدار فتنہ ہے۔
  • منصوبہ بندی کے بغیر خوشحالی عارضی ہے۔
  • طاقت کے باوجود معافی ہی اصل جیت ہے۔
  • اور سب سے بڑھ کر… صبر کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔

یہ ہے یوسف علیہ السلام کی داستان—ایک ایسا سفر جو کنویں کی تاریکی سے شروع ہوا اور سلطنت کی روشنی پر ختم ہوا، لیکن اصل جیت یہ تھی کہ ہر حال میں ایمان اور اللہ کی رضا کو مقدم رکھا۔

تحریر: رانا علی فیصل
🌐 ویب سائٹ: www.ranaaliofficial.com
📢 واٹس ایپ چینل: شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کے مزید تفصیلی واقعات پڑھنے کے لیے ہمارا مضمون حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت ملاحظہ کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *